درد میں ڈوبی ہوئی یہ جومری آواز ہے
حاصِلِ الفت مرے دل کا یہی اعزاز ہے
یہ غزل کہنے کو جو بکھری ہے اس قرطاس پر
در حقیقت کانپتے ہونٹوں کی یہ پرواز ہے
اک سخنور کی طرح کہتی ہوں جو اشعار میں
یہ مری دیوانگی کا دوستو آغاز ہے
مجھ کو پاگل کہہ کے دنیا نے دیا فتو ی حسیں
آج کل اہل ادب کا یہ حسیں انداز ہے
ہچکیاں اور سسکیاں کچھ ہجر کی بے چینیاں
دھڑکنوں کا میری دیکھو آج کل یہ ساز ہے