اس دسمبر کی یہ تلخ یادوں کے موسم
گزر جائیں گے
اب تو اپنی وفا کے ارادوں کے موسم
گزر جائیں گے
تم کہاں آؤ گے
کب مرے واسطے
مہرباں آؤ گے
میری تنہائی میں آ بسو ، کچھ ہنسو
اپنی قسموں کے موسم
یہ وعدوں کے موسم
گزر جائیں گے
کہر میں لپٹی ہر آرزو کھا گئی
جانِ جاں مجھ کو تری جستجو کھا گئی
میں تجھے یاد کرتی رہوں گی مگر
زرد پھولوں کے موسم
گزر جائیں گے
اک نظر کیجئے ،اے مرے بے وفا
میرے دل کی حویلی تو ویران ہے
اب گزر کیجیے
دم بہ دم چپ رہے، سارے غم چپ رہے
ہم سے الفت میں دیکھو جہاں کی طرح
سب ارادوں کے موسم
گزر جائیں گے