دلِ فیاض سے بھی کیا خسارے مانگے گئے
آنسؤں میں لپٹے ہوے زمانے سارے مانگے گئے
عجب دستور ہوتا تھا میرے گاؤں کا
کے ٹوٹے دلوں سے کفارے مانگے گئے
یوں نہ تھا کے کوئی جسم وسُعت میں نہ تھا مگر
بے سہاروں کی بیساخیوں سے سہارے مانگے گئے
دل لٹنے پے آئے فدا ہو گئے ستاروں پے
پھر یوں ہوا کے دعائیں نہیں ٹوٹے ستارے مانگے گئے
کیا کہوں کے دلِ مسافر پے کیا گذری جان
مجھسے جب خط و رمال تمہارے مانگے گئے