قریب ہے کہ ملک الموت
یہاں ہم میں اتر آئے
لیکر گشت اس بازار کا
جا کہے وہ خالق سے
کہ جس دن کا تو کہتا تھا
وہ دن نہ اب دُود ہے
جو پہلے سے ہی مردہ ہوں
مجھے ان سے کیا مقصود ہے
قریب ہے کہ فسانوں سے وہ
حقیقی کردار باغی ہو جائیں
مخاطب آج کی ہیروں رانجھوں سے
وہ چیخ کر یہ کہہ اٹھیں
کہ اے ہوس کے مارو، تم نے تو
ہم کو بھی بدنام کیا
قریب ہے کہ تیز ہوا
زندگی کے اوراق یوں پلٹ جائے
کہ بابِ اوّل میں زینتِ زیست تھے جو
آخر میں اُن کا نشاں نہ ہو