ساتھ رہنے کا جو اقرار نہیں ہو سکتا
زندگی تجھ سے کبھی پیار نہیں ہو سکتا
جس کو دشمن سے سر و کار ہوِ دولت کی ہوس
وہ مرے ملک کا سالار نہیں ہو سکتا
آج بھی دل میں ترے نام کے چرچے ہیں بہت
آج بھی درد کا اظہار نہیں ہو سکتا
جس کی مٹی میں نہ ہو پیار کا جزبہ شامل
کوئی گلشن بھی تو گلزار نہیں ہو سکتا
کتنے معصوم ہیں آنکھوں کی بصارت کھو کر
اب یہ کہتے ہیں کہ دیدار نہیں ہو سکتا
جو ابھی عزت و تکریم سے واقف ہی نہیں
وہ کبھی صاحبِ دستار نہیں ہو سکتا
اس میں گر جان بھی جاتی ہے تو جائے وشمہ
یہ مرا عشق کبھی بار نہیں ہو سکتا