سنا ہے شہر میں اونچا مکان اس کا ہے
اسے ہے زعم بڑا خاندان اس کا ہے
گزر رہی ہے زمانے کی دھوپ چھاؤں میں
کہ سر چھپانے کو آ سمان اس کا ہے
شجر کی چھاؤ ں گھنی ہے نہ زلف کا سایہ
ہمارے سر پہ سائبان اس کا ہے
اٹھا کے پھینک دو لنگر ابھی سمندر میں
ہوا کے ہاتھ اگر بادبان اس کا ہے
بنا لیا ہے بلندی پہ جھونپڑا میں نے
مرے خلاف سراسر بیان اس کا ہے
یہ یاد رکھنا یہاں حرف حرف ہے پہرہ
حروف اور معانی پے دھیان اس کا ہے
مرا اثاثہ ہے وشمہ یقینِ صبحِ حسیں
کرن کرن کے اجالے کو مان اس کا ہے