آج کتنی خاموشی ہے میری اندر لکی
کہ دھڑکنوں شور بھی عذاب لگتا ہے
وہ بارش تھی ، یا ُبوندیں تھی
مجھے تو آنکھوں سے بہتا چناب لگتا ہے
وہ جیسے کہتے ہیں عشق ، کیا وہ ہو گیا ہیں مجھے
جو ہر شخص مجھے سے بے وجہ پریشان لگتا ہے
نجانے آج کس سوچ میں ڈوبی ہیں سورج کی کرنیں
کہ ُاجالے میں بھی اندھرے کا احساس لگتا ہے
وہ جو تتلی تھی جو صدا کھلی رہتی تھی
ُاسے مرجھا دیکھ کر ٹوٹے دل کا گمان لگتا ہے