غزل زندگی کی سنانی پڑے گی
اگر بوجھ بھی ہو بتانی پڑے گی
گلہ کیا کروں ان کے زور و ستم کا
رفاقت اسی سے نبھانی پڑے گی
ہوا کیا ہے آخر ہمیں بھی پتا ہو
عداوت بھی ہوتو چھپانی پڑے گی
اگرچہ غم دہر کا سامنا ہے
مگر میرے ہونٹوں پہ لانی پڑے گی
کبھی رنج و غم تو کبھی بے کسی ہے
مری زندگی کا غم مٹانی پڑے گی
زمانے سے وشمہ فقط غم ملیں گے
مصیبت یہ غم کی اٹھانی پڑے گی