غم کی ڈھلتی ہے کبھی رات تو دکھ ہوتا ہے
میری آنکھوں سے ہو برسات تو دکھ ہوتا ہے
مجھ کو یہ جیت کا عالم تو گوارہ ہی نہیں
اس کو ہو جائے کبھی مات تو دکھ ہوتا ہے
میرا ہرجائی وفاؤں کا خزانہ لے کر
پھر بھی کرتا ہے شکایات تو دکھ ہوتا ہے
پہلے کر کے وہ مرے ساتھ کوئی عہد وفا
غیر کا پکڑے اگر ہاتھ تو دکھ ہوتا ہے
وہ مری آنکھ کا تارہ ہے تو ٹھہرے مجھ میں
وہ بچھڑ جائے کسی رات تو دکھ ہوتا ہے
ٹوٹے حسرت کا منارہ تو کوئی فکر نہیں
وشمہ ٹوٹے جو کبھی ذات تو دکھ ہوتا ہے