غم کے در تک مری غنیمت ہے
گردشوں میں ابھی نصیحت ہے
تیری تصویر خانہ دل میں بھی
چاہتوں سے مری محبت ہے
دل پہ افسردگی جو چھائی تھی
وہ بمشکل مری مصیبت ہے
ہر قدم پر ملا نیا دھوکا
کیسی تقدیر سے شکایت ہے
لاش اک بے کفن محبت کی
دل کے اندر بھی اک ندامت ہے
پھر کیوں چھوڑا ہے راستے میں اسے
تُو تَو غم خوار تھی یہ آفت ہے
اس جہاں سے بہت جدا وشمہ
وقت کی یہ بڑی ہدایت ہے