آنکھ شرمائی ہوئی اور زلف بل کھائی ہوئی
ہونٹ پہ لالی گلوں کی چال اترائی ہوئی
دن بہاروں کے ہیں راتیں بھی ہیں مہکائی ہوئی
ہر ادا اسکی ستائش کی تمنائی ہوئی
خود کو آنچل میں چھپا کر سمٹی سمٹائی ہوئی
لڑکیاں گھر سے نکلتی ہیں یوں گھبرائی ہوئی
روح پر چرکے لگاتی ہے ہر ایک چبھتی نظر
یہ جوانی تو مصیبت ہے کوئی آئی ہوئی
شہر کے تاریک کوچوں میں ذرا دیکھو کبھی
بے کفن پھرتی ہیں کتنی لاشیں بولائی ہوئی
تار چاندی کے اُتر آئے حسیں زلفوں میں اور
سُرمئی آنکھوں میں مایوسی ہے در آئی ہوئی
آئینے کے سامنے خود سے یہ کرتی ہے سوال
کس سیاہی سے تو نے قسمت ہے لکھوائی ہوئی
کتنے سپنوں کی یہاں اُتری ہیں باراتیں مگر
ان گھروں میں نہ کبھی مہمان شہنائی ہوئی
ان کی قسمت میں اُجالے بھی ہیں کملائے ہوئے
چاندنی بھی اُتری ہے آنگن میں گہنائی ہوئی
اب نہیں آتے ہیں شہزادے بدلنے کو نصیب
لڑکیاں مر جاتی ہیں کتنی ہی ٹُھکرائی ہوئی