مجھے کوئی بھی زمانے میں آج راس نہیں
وہ میرا پیار ہے لیکن وفا شناس نہیں
میں ڈٹ گئی ہوں جدائی کے سامنے اب تو
یہ میرا دل ہے جو فرقت میں اب اداس نہیں
فرات! میری نگاہوں سے دور ہو جاؤ
غموں کی دھوپ ہے لیکن ذرا بھی پیاس نہیں
سخن وری میں اچانک خزائیں در آئیں
مرے خیال میں دیکھو نا آج باس نہیں
پرائے شہر میں پھرتی ہوں اپنی مرضی سے
کوئی بھی خوف نہیں ہے، کوئی ہراس نہیں
نئے نصاب میں پڑھنے کو کیا رہا وشمہ
مری وفا کا کہیں بھی تو اقتباس نہیں