اے کاش ! کہ میرے لوٹ آئیں وہ سماں
وہ وقت وہ بے دھیانی کے جہاں
کسی بات کی پرواہ نہ ہوتی تھی
بس خود تھے اور اپنا اک جہاں
خوشی کے پھول کھلتے تھے ہر سو ہر جا
نہ تھا کچھ دل کو خطرہ جہاں
کبھی اندھیرے کا ڈر نہ ہوتا تھا کیونکہ
اپنے ارد گرد پھیلی رہتی تھی اک کہکشاں
وہی کرتے تھے جو دل میں ٹھانی ہوتی تھی
نہ ڈر کسی کا تھا نہ خوف جہاں
پھر نہ جانے کیا ہوا رت بدل گئی
منزل پہ پہچنے سے پہلے لٹ گیا کارواں