وہ بے وفا مری تاکید پر نہیں آیا
کسی بھی بات کی تردید پر نہیں آیا
پیام بھیجا تھا ملنے کا بار ہا میں نے
مگر وہ ملنے مجھے عید پر نہیں آیا
وہ آ رہا تھا مرے شہر میں یقیں جانو
زمانے والوں کی تنقید پر نہیں آیا
یہ داستاں بھی مرے دوست مختصر نہ ہوئی
کہانی کار بھی تمہید پر نہیں آیا
میں اپنی آنکھ کا اک خواب دیکھتی ہی رہی
وہ میرا چاند تھا اور عید پر نہیں آیا
اسے سراہا بھی لیکن وہ بے وفا وشمہ
صدائے عشق کی تائید پر نہیں آیا