اب تک اک سوال سے رہائی نہ ملی
ُتو ساتھ ہے مگر بات کرنے کو تنہائی نہ ملی
میرا رنگ دن با دن پھیکا پڑ رہا ہے
میرے ُحسن کو تیری لکھائی نہ ملی
میں کیسے ڈوب جاؤں جہاں ُسکون ہو
مجھے اب تک تیری آشنائی نہ ملی
میں نے پرکھا ہے قسمیں ُاٹھانے والوں کو
ہائے افسوس کیسی میں پارسائی نہ ملی
وقت نے بیاں کیے راز کیسے کیسے
وہ خوش قسمت ہے جیسے بیوفائی نہ ملی
میں نے ہر دوست کو تراشا ہے لکی
کسی میں بھی مجھے سچائی نہ ملی