وہ نہ رکھے امیدِ ر حمانی
جس کے اندر ہے سوچ شیطانی
خون سستا ہے مہنگا ہے پانی
پھر بھی دیں گے ضرور قربانی
نام لکھ دو جہادِ اکبر میں
زیست ہو جائے گی یہ لافانی
اک سمندر ہے آنکھ میں لیکن
کتنی ہلچل ہے کتنی طغیانی
پہلے دکھتا تھا پاس میں رہنا
اب جدائی میں کسی حیرانی
زندگی کے قریب رہ کر بھی
کیسا شکوہ ہے ،کیسی من مانی
بات کرنی ہے گر محبت کی
چھوڑو وشمہ یہ ساری نادانی