!وہ پتھر کا ہو گیا
Poet: Shafqat Jilani By: Shafqat Jilani, Lahoreدستِ طلب درازتھا ، وہ پتھر کا ہو گیا
جوبھی رُوےء جمال تھا، وہ پتھر کا ہو گیا
وہ تیرگیء بخت کہ اُٹھا کے ہاتھ
جس کو مانگا ہم نے، وہ پتھر کا ہو گیا
دارِ خلوص پرہمیں عبرت بنا کے پھر
جو تھا صندلیں حباب، وہ پتھر کا ہو گیا
جوشِ سکون جیسی وارفتگی کے ساتھ
جِس کو تھاما ہم نے، وہ پتھر کا ہو گیا
تشنہ لبی کےہاتھوں محصور یوں ہوےء
آنسو تھا جو سنبھالا، وہ پتھر کا ہو گیا
ختمِ سفر پہ مرگِ حیرت گزیں ملی بس
دِلِ جانگدازتھا جو، وہ پتھر کا ہو گیا
نازِ رُباب یوں تو بہت تابناک تھا
چھوُا جو ہم نے تار، وہ پتھرکا ہو گیا
کوہِ ندا پہ اُس کو پُکاراجو آخرِش
آیا ہے یہ جواب، وہ پتھر کا ہو گیا
سارے خصال اُسکے اپنی مثال تھے
تب اُٹھ گیا حجاب، وہ پتھر کا ہو گیا
اسپِ جہان دست محوِ اُڑان تھا
جو ہم ہُوےء رکاب، وہ پتھر کا ہو گیا
واعظ اٹل گُمان تھا اِک تیرگی کے ساتھ
اُڑایء جو ہم نے خاک، وہ پتھر کا ہو گیا
مغنی کہ خوش کلام تھا، سوزِ بہار تھا
پوچھا جو اُس کا حال، وہ پتھر کا ہو گیا
کس سے کہیں یہ کیسی دِل شکستگی ہے
اک ہی تھا ہم خیال، وہ پتھر کا ہو گیا
قرنوں کی تیرگی کو سمیٹتے ہوےء
تارہ جو اک نہال تھا، وہ پتھر کا ہو گیا
میرِ کارواں سے پوچھا جنوں کا حال
تھا اُس کا یہ جواب، وہ پتھر کا ہو گیا
خوابیدہ اُس محل میں خوش تھے ضمیر سارے
جوبھی ہُوا بیدار، وہ پتھر کا ہو گیا
بکتے رہے دیوانِ ہوس میں اقتدار
جو شخص بھی تھا کمال ، وہ پتھر کا ہو گیا
ساعتِ عدل میں مُنصف تھا مہربان
شاہد جو تھا ہمارا، وہ پتھر کا ہو گیا
بازارِ وفا میں سُود چُکانا محال تھا
بس اک بچا تھا ارماں، وہ پتھر کا ہو گیا
ہر دامِ دلفریب پر جا ہوےء نثار
جس کو پُوجا ہم نے، وہ پتھر کا ہو گیا
آبِ رواں پہ رقصاں وہ زندگی کا گیت
جو خیالِ دل نشیں تھا، وہ پتھر کا ہو گیا
وابستہء اُمید تھا اغیارِچمن سے برسوں
عجب سا جو نداں، وہ پتھر کا ہو گیا
رنگوں سے کھیلنا باتوں کی بھیڑ میں
تھا اپنا اک کمال، وہ پتھر کا ہو گیا
کہہ نہ سکا میں اُس کو اپنے سفرکا حال
تھا مُجھ کو یہ گُمان، وہ پتھر کا ہو گیا
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






