دستِ طلب درازتھا ، وہ پتھر کا ہو گیا
جوبھی رُوےء جمال تھا، وہ پتھر کا ہو گیا
وہ تیرگیء بخت کہ اُٹھا کے ہاتھ
جس کو مانگا ہم نے، وہ پتھر کا ہو گیا
دارِ خلوص پرہمیں عبرت بنا کے پھر
جو تھا صندلیں حباب، وہ پتھر کا ہو گیا
جوشِ سکون جیسی وارفتگی کے ساتھ
جِس کو تھاما ہم نے، وہ پتھر کا ہو گیا
تشنہ لبی کےہاتھوں محصور یوں ہوےء
آنسو تھا جو سنبھالا، وہ پتھر کا ہو گیا
ختمِ سفر پہ مرگِ حیرت گزیں ملی بس
دِلِ جانگدازتھا جو، وہ پتھر کا ہو گیا
نازِ رُباب یوں تو بہت تابناک تھا
چھوُا جو ہم نے تار، وہ پتھرکا ہو گیا
کوہِ ندا پہ اُس کو پُکاراجو آخرِش
آیا ہے یہ جواب، وہ پتھر کا ہو گیا
سارے خصال اُسکے اپنی مثال تھے
تب اُٹھ گیا حجاب، وہ پتھر کا ہو گیا
اسپِ جہان دست محوِ اُڑان تھا
جو ہم ہُوےء رکاب، وہ پتھر کا ہو گیا
واعظ اٹل گُمان تھا اِک تیرگی کے ساتھ
اُڑایء جو ہم نے خاک، وہ پتھر کا ہو گیا
مغنی کہ خوش کلام تھا، سوزِ بہار تھا
پوچھا جو اُس کا حال، وہ پتھر کا ہو گیا
کس سے کہیں یہ کیسی دِل شکستگی ہے
اک ہی تھا ہم خیال، وہ پتھر کا ہو گیا
قرنوں کی تیرگی کو سمیٹتے ہوےء
تارہ جو اک نہال تھا، وہ پتھر کا ہو گیا
میرِ کارواں سے پوچھا جنوں کا حال
تھا اُس کا یہ جواب، وہ پتھر کا ہو گیا
خوابیدہ اُس محل میں خوش تھے ضمیر سارے
جوبھی ہُوا بیدار، وہ پتھر کا ہو گیا
بکتے رہے دیوانِ ہوس میں اقتدار
جو شخص بھی تھا کمال ، وہ پتھر کا ہو گیا
ساعتِ عدل میں مُنصف تھا مہربان
شاہد جو تھا ہمارا، وہ پتھر کا ہو گیا
بازارِ وفا میں سُود چُکانا محال تھا
بس اک بچا تھا ارماں، وہ پتھر کا ہو گیا
ہر دامِ دلفریب پر جا ہوےء نثار
جس کو پُوجا ہم نے، وہ پتھر کا ہو گیا
آبِ رواں پہ رقصاں وہ زندگی کا گیت
جو خیالِ دل نشیں تھا، وہ پتھر کا ہو گیا
وابستہء اُمید تھا اغیارِچمن سے برسوں
عجب سا جو نداں، وہ پتھر کا ہو گیا
رنگوں سے کھیلنا باتوں کی بھیڑ میں
تھا اپنا اک کمال، وہ پتھر کا ہو گیا
کہہ نہ سکا میں اُس کو اپنے سفرکا حال
تھا مُجھ کو یہ گُمان، وہ پتھر کا ہو گیا