پہلے سے ہی آندھی کا پتہ کیوں نہیں دیتے
خوابیدہ پرندوں کو جگا کیوں نہیں دیتے
آنکھوں میں بٹھا رکھا ہے کچھ روز سے تم نے
اب دل میں مری جان جگہ کیوں نہیں دیتے
شاہوں سے تعلق تو بنا رکھا ہے سب نے
ہم جیسے فقیروں کو صدا کیوں نہیں دیتے
کیوں دیکھتے رہتے ہو یہ سانسوں کا تماشا
خاموش مسیحا ہو ِ، دوا کیوں نہیں دیتے
نادان ہو،غمخوار ہو، مخلص بھی ہو میرے
انمول محبت کی فضا کیوں نہیں دیتے
اس دور میں جینا تومرا جرم ہوا ہے
ماضی سے مرا حال ملا کیوں نہیں دیتے
آنکھوں سے کئے جاتے ہیں باتیں بھی جو وشمہ
محفل میں کلام اپنا سنا کیوں نہیں دیتے