چھوڑ کر ہاتھ، سر بزم اکیلا کرتا
اس طرح دشت وفا میں وہ دھکیلا کرتا
مسکراتے ہوئے پھر ذکر رقیباں ہوتا
دیر تک یوں مرے جزبات سے کھیلا کرتا
میں تھا مجبور محبت سے، ستم سہتا تھا
وہ عداوت میں کئی روز جھمیلا کرتا
زخم پہ کتنی مسرت سے چھڑکتا تھا نمک
اور جلتی پہ کبھی تیل اُنڈیلا کرتا
شان اظہر کی گھٹی اور نہ نقصان ہوا
بد مزاجی سے وہ خود کو ہی کسیلا کرتا