کبھی جالی کبھی گنبد کبھی مینار کے ساتھ
لپٹی جاتی ہے نظر نور کے آچار کے ساتھ
ابھی الفاط ہی سوچے تھے کہ یوں مانھیں گے
رحمتیں بیٹھ گئیں لگ کے طلبگار کے ساتھ
یہ مدینے کے اجالوں کوہمیشہ دیکھیں
رکھ کے آجاؤں میں آنکھیں اپنی انوار کے ساتھ
قول اور فعل میں یکجائی مسلم ان کی
ان کا کردار بھی بے مثل تھا گفتار کے ساتھ
باندھے رکھتا ہے شفاعت کے تصو ر سے اسے
آس کا ایک سرا آپ کے بیمار کے ساتھ
جن اجالوں سے بصارت کو جلا ملتی ہے
متصل ہیں وہ فقط آپ کے دربار کے ساتھ
آپ سا کوئی ہوا ہے نہ کبھی بھی ہوگا
جو بھی خوبی ہے وہ وشمہ سرکار کے ساتھ