کھوکھلی ہنسی !
Poet: عمیر اکبر تابش By: umair Akbar tabish , Rawalpindiاندر سے مر چکا ہوں دیکھو میرا تبسم
لبوں پہ کھل گیا ہے
سب یہ سمجھ رہے ہیں خوشی سے جی رہا ہے
انہیں معلوم کیا یہ اندر سے مر چکا ہے
مر مر کے جی رہا ہے اشکوں کو پی رہا ہے
کانٹوں کے اک سفر پہ ہتھیلی کو رکھ کے اپنی
تلاش وفا میں پاگل کب سے جی رہا ہے
سنے کوئی کیوں فریاد قلب مقتل
خودی کو قتل کر کے خودی میں جی رہا ہے
دے رہا ہے خود کو سزا مسلسل ظالم
ہجر و فراق کے سب غم خود ہی تو پی رہا ہے
اپنے ہیں سب میرے اپنے بیگانہ تو کوئی نہیں ہے
اپنوں میں اک بیگانہ تابش ہی جی رہا ہے
More Sad Poetry






