اندر سے مر چکا ہوں دیکھو میرا تبسم
لبوں پہ کھل گیا ہے
سب یہ سمجھ رہے ہیں خوشی سے جی رہا ہے
انہیں معلوم کیا یہ اندر سے مر چکا ہے
مر مر کے جی رہا ہے اشکوں کو پی رہا ہے
کانٹوں کے اک سفر پہ ہتھیلی کو رکھ کے اپنی
تلاش وفا میں پاگل کب سے جی رہا ہے
سنے کوئی کیوں فریاد قلب مقتل
خودی کو قتل کر کے خودی میں جی رہا ہے
دے رہا ہے خود کو سزا مسلسل ظالم
ہجر و فراق کے سب غم خود ہی تو پی رہا ہے
اپنے ہیں سب میرے اپنے بیگانہ تو کوئی نہیں ہے
اپنوں میں اک بیگانہ تابش ہی جی رہا ہے