یہ فتنہ سازیاں چاہت بھری ہیں
ذرا سی جان میں اُتری ہوئی ہیں
ابھی باریک باتوں کو نہ چھیڑو
وہ بچپن کے کھلونوں میں گِھری ہیں
سکوں آئے گا کب دن بھر تجھے اب
اکیلے رات بھر رونے لگی ہیں
فریبِ زندگی میں کھو کے اکثر
ندی میں چاند کے ہمرہ بَہی ہیں
کبھی مانگا تھا سورج جگنوؤں سے
ابھی پھر تتلیاں پکڑے کھڑی ہیں
پڑی ہے خود فریبی کی جو عادت
وہ اب آئینہ کم کم دیکھتی ہیں
کتابوں سے ہوئی جب سے محبّت
وہ اپنی ڈائری لکھنے لگی ہیں
لگے گا دل کہاں پھر دوستوں میں
فضائیں ہر طرف ہی ماتمی ہیں
حِنا کی عطر بیزی دیدنی ہے
گل و لالہ کی لڑیاں ہنس رہی ہیں
ابھی تاروں ،گلوں، کلیوں سے کھیلو
کٹھن باتوں میں وشمہ کیوں پڑی ہیں