صبح سویرے شہر کو لڑکا پڑھنے جایا کرتا تھا
گاؤں سے باہر دُور سے لڑکی اللہ حافظ کہتی تھی
چھٹی کر کے شہر سے لڑکا گاؤں واپس آتا تھا
ہم مکتب احباب کو چھوڑے لڑکی سے جا مَلتا تھا
اور چہرہ دیکھ کے لڑکی کا
لڑکے کی تھکن اڑ جاتی تھی
باتیں پھر سارے گاؤں کی سب لڑکی اُسے سُناتی تھی
لڑکا بھی اُس کو دَن کا سارا حال سُنایا کرتا تھا
لڑکا تب اُس کی باتوں میں کُچھ ایسا گُم ہو جاتا تھا
کُچھ ہوش اُسے نہ رہتا تھا
لڑکی پھر چونک کے اُٹھتی تھی
یہ خیال اُسے تڑپاتا تھا
کہ لمبی مسافت طے کر کے
اور سارا دَن پڑھتے پڑھتے
لڑکا تو تھک جاتا ہے
آرام اُسے اب کرنا ہے
گھر جا اُسے پھر پڑھنا ہے
اُٹھ جانے کا اُسے وُہ کہتی تھی
بڑے پیار سے اُسے مناتی تھی
اور گھر کی راہ دَکھاتی تھی
کیا یاد تجھے بھی آتے ہیں
اَک لڑ کی بھولی بھالی سی اَک لڑکا من کا اُجلا سا