Poetries by Ainee Tahir
دل توڑ کے جانے والے سن دل توڑ کے جانے والے سن
منہ موڑ کے جانے والے سن
اس دل میں تیری ہی یادیں
تیری ہی باتیں رہتی ہیں
دل کو ہر بار یہ سمجھایا
جو چھوڑ کے جانے والے ہوں
وہ واپس کیسے پلٹیں گے
منہ موڑ کے جانے والے ہوں
وہ تیری طرف کیوں دیکھیں گے
لیکن یہ ناداں دل میرا
ہر لمحہ تجھ کو یاد کرے
ہر لمحہ تیری بات کرے
دل توڑ کے جانے والے سن
دل تیرے لیے ہی دھڑکے ہے Ainee Tahir
منہ موڑ کے جانے والے سن
اس دل میں تیری ہی یادیں
تیری ہی باتیں رہتی ہیں
دل کو ہر بار یہ سمجھایا
جو چھوڑ کے جانے والے ہوں
وہ واپس کیسے پلٹیں گے
منہ موڑ کے جانے والے ہوں
وہ تیری طرف کیوں دیکھیں گے
لیکن یہ ناداں دل میرا
ہر لمحہ تجھ کو یاد کرے
ہر لمحہ تیری بات کرے
دل توڑ کے جانے والے سن
دل تیرے لیے ہی دھڑکے ہے Ainee Tahir
قسم لے لے اسے کہنا
قسم لے لے
جو اس کے بعد اس دل نے
کسی کو پھر سے چاہا ہو
سوا اس کے دعا میں
اور کچھ بھی دل نے مانگا ہو
شبِ فرقت میں اس دل نے
نہ تیرا وصل مانگا ہو
سوا اس کے مرے دل نے
کسی کا قرب مانگا ہو
کسی کی راہ دیکھی ہو
کوئی امید باندھی ہو
کسی کو دل میں جا دی ہو
اسے کہنا کہ اس کے بعد
مرے دل نے کسی کو بھی نہیں چاہا
بچھڑ کر اس سے اب دل میں
نہ موسم وصل کا آیا
خزاں ہر سو ہی چھائی ہے
اسے کہنا کہ یہ دل اب بھی
اسی کے نام کی تسبیح
سویرے شام پڑھتا ہے Ainee Tahir
قسم لے لے
جو اس کے بعد اس دل نے
کسی کو پھر سے چاہا ہو
سوا اس کے دعا میں
اور کچھ بھی دل نے مانگا ہو
شبِ فرقت میں اس دل نے
نہ تیرا وصل مانگا ہو
سوا اس کے مرے دل نے
کسی کا قرب مانگا ہو
کسی کی راہ دیکھی ہو
کوئی امید باندھی ہو
کسی کو دل میں جا دی ہو
اسے کہنا کہ اس کے بعد
مرے دل نے کسی کو بھی نہیں چاہا
بچھڑ کر اس سے اب دل میں
نہ موسم وصل کا آیا
خزاں ہر سو ہی چھائی ہے
اسے کہنا کہ یہ دل اب بھی
اسی کے نام کی تسبیح
سویرے شام پڑھتا ہے Ainee Tahir
کسے فرصت یہاں پر ہے ۔۔۔ !!! خواب سجائے آنکھوں میں
ہم نے کتنا صبر کیا ہے
نجانے زندگی مجھ کو
کہاں پر لے کے آئی ہے
مری ہر بات کا اب تو
کوئی مطلب نہیں ملتا
سبھی رشتے سبھی ناطے
مجھے اب غیر لگتے ہیں
سبھی قسمیں سبھی وعدے
مٹی کا ڈھیر لگتے ہیں
ویرانی میری آنکھوں کی
غمِ ہجراں سناتی ہے
مجھے اب گردشِ دوراں
یہاں تک لے کے آئی ہے
میں پھولوں کو اگر چھولوں
تو وہ مرجھا سا جاتے ہیں
جو منزل ڈھونڈنا چاہوں
ستارے روٹھ جاتے ہیں
میں اپنے سارے خوابوں کی
جو بیتے ان عذابوں کی
سناؤں داستاں کس کو
کسے فرصت یہاں پر ہے
غمِ ہجراں کے ماروں کی
جو دل سے داستاں سن لے Ainee Tahir
ہم نے کتنا صبر کیا ہے
نجانے زندگی مجھ کو
کہاں پر لے کے آئی ہے
مری ہر بات کا اب تو
کوئی مطلب نہیں ملتا
سبھی رشتے سبھی ناطے
مجھے اب غیر لگتے ہیں
سبھی قسمیں سبھی وعدے
مٹی کا ڈھیر لگتے ہیں
ویرانی میری آنکھوں کی
غمِ ہجراں سناتی ہے
مجھے اب گردشِ دوراں
یہاں تک لے کے آئی ہے
میں پھولوں کو اگر چھولوں
تو وہ مرجھا سا جاتے ہیں
جو منزل ڈھونڈنا چاہوں
ستارے روٹھ جاتے ہیں
میں اپنے سارے خوابوں کی
جو بیتے ان عذابوں کی
سناؤں داستاں کس کو
کسے فرصت یہاں پر ہے
غمِ ہجراں کے ماروں کی
جو دل سے داستاں سن لے Ainee Tahir
بیٹھے ہیں جو چاہ کو تری دل میں چھپائے بیٹھے ہیں
وہ سب کچھ اپنا تجھی کو بنائے بیٹے ہیں
نہیں ہے ان کو فکر اب جہان والوں کی
ترے لیے جو یہ دنیا بھلائے بیٹھے ہیں
نہ ان کو راس ہے کوئی خوشی نہ کوئی غم
کسی کے غم کو جو دنیا بنائے بیٹھے ہیں
وہ خوش نصیب ہے جس کو ملا ہے وصلِ یار
فراقِ یار میں ہم جاں گنوائے بیٹھے ہیں
امید ہے کہ ملے گا ہمیں تو مر کے سکوں
ہم ایک آس پر سب کچھ لٹائے بیٹے ہیں Ainee Tahir
وہ سب کچھ اپنا تجھی کو بنائے بیٹے ہیں
نہیں ہے ان کو فکر اب جہان والوں کی
ترے لیے جو یہ دنیا بھلائے بیٹھے ہیں
نہ ان کو راس ہے کوئی خوشی نہ کوئی غم
کسی کے غم کو جو دنیا بنائے بیٹھے ہیں
وہ خوش نصیب ہے جس کو ملا ہے وصلِ یار
فراقِ یار میں ہم جاں گنوائے بیٹھے ہیں
امید ہے کہ ملے گا ہمیں تو مر کے سکوں
ہم ایک آس پر سب کچھ لٹائے بیٹے ہیں Ainee Tahir
محبت ہو نہیں سکتی کہا اس نے کہ ہم دونوں میں
کچھ اور ہو تو ہو
محبت ہو نہیں سکتی
تمہیں چاہت بہاروں کی
میں شیدا ہوں خزاؤں کا
تمہیں خوشیاں نہیں ملتیں
میں غم سے دور رہتا ہوں
تمہیں شاخوں سے گرتے پھول
پل میں ویراں کرتے ہیں
مجھے پھولوں کو شاخوں سے
جُدا کرنا لُبھاتا ہے
غرض ہر بات اپنی تو
جدا ہے ایک دوجے سے
یہ سن کر میرے اندر کا
وہ ہنستا مسکراتا شخص
اپنی جاں گنوا بیٹھا Ainee Tahir
کچھ اور ہو تو ہو
محبت ہو نہیں سکتی
تمہیں چاہت بہاروں کی
میں شیدا ہوں خزاؤں کا
تمہیں خوشیاں نہیں ملتیں
میں غم سے دور رہتا ہوں
تمہیں شاخوں سے گرتے پھول
پل میں ویراں کرتے ہیں
مجھے پھولوں کو شاخوں سے
جُدا کرنا لُبھاتا ہے
غرض ہر بات اپنی تو
جدا ہے ایک دوجے سے
یہ سن کر میرے اندر کا
وہ ہنستا مسکراتا شخص
اپنی جاں گنوا بیٹھا Ainee Tahir
چلو اک کام کرتے ہیں اسے کہنا کہ لوٹ آئے
یہاں سب کچھ
تمہارے بن ادھورا ہے
میری صبحیں میری شامیں
تمہیں ہر پل بلاتی ہیں
تیری یادیں تیری باتیں
مجھے ہر پل ستاتی ہیں
نجانے کیوں مجھے اکثر
یہی محسوس ہوتا ہے
مقدر میں مرے اب تو
عذابِ زندگانی ہے
گئے لمحوں کی یادیں ہیں
فراقِ ناگہانی ہے
اسے کہنا
کہ اب وہ لوٹ ہی آئے
Ainee Tahir
یہاں سب کچھ
تمہارے بن ادھورا ہے
میری صبحیں میری شامیں
تمہیں ہر پل بلاتی ہیں
تیری یادیں تیری باتیں
مجھے ہر پل ستاتی ہیں
نجانے کیوں مجھے اکثر
یہی محسوس ہوتا ہے
مقدر میں مرے اب تو
عذابِ زندگانی ہے
گئے لمحوں کی یادیں ہیں
فراقِ ناگہانی ہے
اسے کہنا
کہ اب وہ لوٹ ہی آئے
Ainee Tahir
Zakhm Kya Kya Na Zindagi se Mile Zakhm Kya Kya Na Zindagi Se Mile
Khwaab Palkon Se Berukhi Se Mile
Aap Ko Mil Gaye Hain Qismat Se
Hum Zamaane Mein Kab Kisi Se Mile ?
Aise Khushbu Se Mil Raha Hai Gulaab
Jis Tarah Raat Roshani Se Mile
Hum Faqeeron Se Dosti Hai Magar
Uss Se Kehna Ki Saadagi Se Mile
Dil Mein Rakhte Hain Ehtiyaat Se Hum
Zakhm Jo Jo Bhi Jis Kisi Se Mile
Zindagi Se Gale Mile Toh Laga
Ajnabi Jaise Ajnabi Se Mile
Uss Ke Seene Mein Dil Nahin Tha ‘Batool
Hum Ne Socha Tha Aadmi Se Mile Ainee Tahir
Khwaab Palkon Se Berukhi Se Mile
Aap Ko Mil Gaye Hain Qismat Se
Hum Zamaane Mein Kab Kisi Se Mile ?
Aise Khushbu Se Mil Raha Hai Gulaab
Jis Tarah Raat Roshani Se Mile
Hum Faqeeron Se Dosti Hai Magar
Uss Se Kehna Ki Saadagi Se Mile
Dil Mein Rakhte Hain Ehtiyaat Se Hum
Zakhm Jo Jo Bhi Jis Kisi Se Mile
Zindagi Se Gale Mile Toh Laga
Ajnabi Jaise Ajnabi Se Mile
Uss Ke Seene Mein Dil Nahin Tha ‘Batool
Hum Ne Socha Tha Aadmi Se Mile Ainee Tahir
مجھے سوچتا ہے اِک پشیمان سی حسرت مُجھے سوچتا ہے
اب وُہی شہر محبت سے مُجھے سوچتا ہے
میں تو مُحدود سے لمحوں میں مِلی تھی اُسے
پھر بھی وہ کِتنی وضاحت سے مُجھے سوچتا ہے
جِس نے سوچا ہی نہ تھا ہجر کا ممکن ہونا
دُکھ میں ڈوُبی ہُوئی حیرت سے مُجھے سوچتا ہے
میں تو مَرجاؤں اگر سوچتے لگ جاؤں اُسے
اور وہ کِتنی سہُولت سے مُجھے سوچتا ہے
گرچہ اب ترکِ مراسم کو بہت دیر ہُوئی
اب بھی وہ میری اجازت سے مُجھے سوچتا ہے
کِتنا خوش فہم ہے وہ شخص کہ ہر موسم میں
اِک نئے رُخ نئی صُورت سے مُجھے سوچتا ہے
Ainee Tahir
اب وُہی شہر محبت سے مُجھے سوچتا ہے
میں تو مُحدود سے لمحوں میں مِلی تھی اُسے
پھر بھی وہ کِتنی وضاحت سے مُجھے سوچتا ہے
جِس نے سوچا ہی نہ تھا ہجر کا ممکن ہونا
دُکھ میں ڈوُبی ہُوئی حیرت سے مُجھے سوچتا ہے
میں تو مَرجاؤں اگر سوچتے لگ جاؤں اُسے
اور وہ کِتنی سہُولت سے مُجھے سوچتا ہے
گرچہ اب ترکِ مراسم کو بہت دیر ہُوئی
اب بھی وہ میری اجازت سے مُجھے سوچتا ہے
کِتنا خوش فہم ہے وہ شخص کہ ہر موسم میں
اِک نئے رُخ نئی صُورت سے مُجھے سوچتا ہے
Ainee Tahir
عہد نامہ غلط کہا ہے کسی نے تم سے
کہ جنگ ہو گی!
زمیں کے سینے پہ بے تحاشہ لہو بہے گا
لُو بہے گا۔۔ بصورتِ آبجو بہے گا
لہو جو میزانِ آرزو ہے
لُہو جو ہابیلؔ و ابنِ مریم کی آبرو ہے
لہو جو ابنِ علیؑ کے سایۂ چشم و اَبرو میں سُر خرو ہے
مجاوران شبِ ہلاک کی سازشوں کے مقابلے میں
جو روشنی، تپش، تمازت، طلب، نمو ہے
لہو امانت ہے آگہی کی
لہو ضمانت ہے زندگی کی
لہوبہے گا تو مسکراتی ہوئی زمیں پر
نو پھول مہکیں گے چاہتوں کے
نہ رقصِ خوشبو نہ موسموں کی تمیز کوئی
نہ زندگی کا نشاں رہے گا
(فقط اُجل کا دُھواں رہے گا)
غلط کہا ہے کسی نے تم سے
کہ جنگ ہو گی
سمندروں سے اُٹھیں گے شعلے
زمیں کے سینے پہ موت ناچے گی
کھیت کھلیان راکھ ہو جائیں گے جھُلس کر
فضا میں بارود پھانک لے گا
بشر کی سانسیں!
یہ ہنستے بستے گھروں کے آنگن
بنیں گے مَدفن!!
ہزارہا بے گناہ مائوں کی چھاتیوں سے
لپٹ کے سوئے، گلی محلوں میں کھیلتے
بے نیاز بچوں کے
جن کی آنکھوں میں کوئی سازش نہ جُرم کوئی
تمھیں خبر ہے کہ جنگ ہو گی تو اس کے شعلے
زمیں کی ہریالیاں۔۔ نگلنے کے بعد میں بھی
نہ سرد ہوں گے
تمھیں خبر ہے کہ جنگ ہو گی
تو آنے والے کئی برس
بانجھ موسموں کی طرح کٹیں گے،
تمام آباد شہر۔۔ سُنسان وادیوں کی طرح بٹیں گے
قضا کے آسیب اپنے جبڑوں میں پیش دیں گے
تمام لاشیں، تمام ڈھانچے، تمام پنجر
نہ فاختائیں رہیں گی باقی
نہ شاہراہوں پہ روشنی کا جلوس ہو گا
لہو کے رشتے، نہ عکسِ تہذیبِ آدمیت
نہ ارتباطِ خلوص ہو گا
تمھیں خبر ہے کہ جنگ ہو گی تو اس کے شعلے
تمام جذبوں کو چاٹ لیں گے
زندگی کا نشا رہے گا
فقط اجل کا دھواں رہے گا
تمھیں خبر ہے تو بے خبر بن کے سوچیتے کیا ہو،
دیکھتے کیا ہو؟
آئو اپنے لہو سے لکھیں وہ عہد نامہ
جو عزِ تخریب رکھنے والوں کے عہد ناموں سے معتبر ہو
وہ عہد نامہ کہ جس کے لفظوں میں
مسکراتے حِسین بچوں کی دلکشی ہو
نحیف مائوں کی سادگی ہو
ضعیف محنت کشوں کے ہاتھوں سے
لہلہاتے جوان کھیتوں کی زندگی ہو
اُٹھو کہ لکھیں وہ عہد نامہ،
جو امن کی فاختہ کے نغموں سے گونجتا ہو
لکھو کہ
خوشبوئے امن بارود کی ہلاکت سے معتبر ہے،
لکھو کہ ہنستی ہوئی سحر، شب کی تیرگی سے عظیم تر ہے،
لکھو کہ دھرتی اجاڑنے والے مجرموں کا حساب ہو گا
لکھو کہ بارود کا دھواں خود بشر پہ اپنا عذاب ہو گا
’’تم اپنی خوہش کی بھٹیوں میں جلائو خود کو
مگر ہمیں امن کی خنک چھائوں میں
دعائوں میں سانس لینے دو زندگی بھر
کہ جنگ ہو گی تو دیکھ لینا
کہ زندگی کی سحر نہ ہو گی
کسی کو اپنی خبر نہ ہو گی! Ainee Tahir
کہ جنگ ہو گی!
زمیں کے سینے پہ بے تحاشہ لہو بہے گا
لُو بہے گا۔۔ بصورتِ آبجو بہے گا
لہو جو میزانِ آرزو ہے
لُہو جو ہابیلؔ و ابنِ مریم کی آبرو ہے
لہو جو ابنِ علیؑ کے سایۂ چشم و اَبرو میں سُر خرو ہے
مجاوران شبِ ہلاک کی سازشوں کے مقابلے میں
جو روشنی، تپش، تمازت، طلب، نمو ہے
لہو امانت ہے آگہی کی
لہو ضمانت ہے زندگی کی
لہوبہے گا تو مسکراتی ہوئی زمیں پر
نو پھول مہکیں گے چاہتوں کے
نہ رقصِ خوشبو نہ موسموں کی تمیز کوئی
نہ زندگی کا نشاں رہے گا
(فقط اُجل کا دُھواں رہے گا)
غلط کہا ہے کسی نے تم سے
کہ جنگ ہو گی
سمندروں سے اُٹھیں گے شعلے
زمیں کے سینے پہ موت ناچے گی
کھیت کھلیان راکھ ہو جائیں گے جھُلس کر
فضا میں بارود پھانک لے گا
بشر کی سانسیں!
یہ ہنستے بستے گھروں کے آنگن
بنیں گے مَدفن!!
ہزارہا بے گناہ مائوں کی چھاتیوں سے
لپٹ کے سوئے، گلی محلوں میں کھیلتے
بے نیاز بچوں کے
جن کی آنکھوں میں کوئی سازش نہ جُرم کوئی
تمھیں خبر ہے کہ جنگ ہو گی تو اس کے شعلے
زمیں کی ہریالیاں۔۔ نگلنے کے بعد میں بھی
نہ سرد ہوں گے
تمھیں خبر ہے کہ جنگ ہو گی
تو آنے والے کئی برس
بانجھ موسموں کی طرح کٹیں گے،
تمام آباد شہر۔۔ سُنسان وادیوں کی طرح بٹیں گے
قضا کے آسیب اپنے جبڑوں میں پیش دیں گے
تمام لاشیں، تمام ڈھانچے، تمام پنجر
نہ فاختائیں رہیں گی باقی
نہ شاہراہوں پہ روشنی کا جلوس ہو گا
لہو کے رشتے، نہ عکسِ تہذیبِ آدمیت
نہ ارتباطِ خلوص ہو گا
تمھیں خبر ہے کہ جنگ ہو گی تو اس کے شعلے
تمام جذبوں کو چاٹ لیں گے
زندگی کا نشا رہے گا
فقط اجل کا دھواں رہے گا
تمھیں خبر ہے تو بے خبر بن کے سوچیتے کیا ہو،
دیکھتے کیا ہو؟
آئو اپنے لہو سے لکھیں وہ عہد نامہ
جو عزِ تخریب رکھنے والوں کے عہد ناموں سے معتبر ہو
وہ عہد نامہ کہ جس کے لفظوں میں
مسکراتے حِسین بچوں کی دلکشی ہو
نحیف مائوں کی سادگی ہو
ضعیف محنت کشوں کے ہاتھوں سے
لہلہاتے جوان کھیتوں کی زندگی ہو
اُٹھو کہ لکھیں وہ عہد نامہ،
جو امن کی فاختہ کے نغموں سے گونجتا ہو
لکھو کہ
خوشبوئے امن بارود کی ہلاکت سے معتبر ہے،
لکھو کہ ہنستی ہوئی سحر، شب کی تیرگی سے عظیم تر ہے،
لکھو کہ دھرتی اجاڑنے والے مجرموں کا حساب ہو گا
لکھو کہ بارود کا دھواں خود بشر پہ اپنا عذاب ہو گا
’’تم اپنی خوہش کی بھٹیوں میں جلائو خود کو
مگر ہمیں امن کی خنک چھائوں میں
دعائوں میں سانس لینے دو زندگی بھر
کہ جنگ ہو گی تو دیکھ لینا
کہ زندگی کی سحر نہ ہو گی
کسی کو اپنی خبر نہ ہو گی! Ainee Tahir
وعدہ ہمیشہ ٹوٹ جاتا ہے ۔۔۔ ! تیری یادیں مجھے ہر پل
نجانے کیوں ستاتی ہیں ۔۔۔ ؟
تری باتیں مرے دل کو
نئی راہیں دکھاتی ہیں
مری صبحیں، مری شامیں
صرف تجھ کو بلاتی ہیں
یہ اب میرا ارادہ ہے
یہی تو خود سے وعدہ ہے
گر تیری یاد اب آئی
مجھے تو اس سے لڑنا ہے
ترے خوابوں سے اس دل کو
مجھے آزاد کرنا ہے
بنا تیرے یہ جیون اب
مجھے تو شاد کرنا ہے ۔۔۔
نجانے کیوں ۔۔۔
اکثر یونہی ہوتا ہے،
میرا خود سے کیا وعدہ
ہمیشہ ٹوٹ جاتا ہے ۔۔۔ ! Ainee Tahir
نجانے کیوں ستاتی ہیں ۔۔۔ ؟
تری باتیں مرے دل کو
نئی راہیں دکھاتی ہیں
مری صبحیں، مری شامیں
صرف تجھ کو بلاتی ہیں
یہ اب میرا ارادہ ہے
یہی تو خود سے وعدہ ہے
گر تیری یاد اب آئی
مجھے تو اس سے لڑنا ہے
ترے خوابوں سے اس دل کو
مجھے آزاد کرنا ہے
بنا تیرے یہ جیون اب
مجھے تو شاد کرنا ہے ۔۔۔
نجانے کیوں ۔۔۔
اکثر یونہی ہوتا ہے،
میرا خود سے کیا وعدہ
ہمیشہ ٹوٹ جاتا ہے ۔۔۔ ! Ainee Tahir