Poetries by Muhammad Anwer
ہمارے ملن کی یہ آخری رات ہے دیوار و در پر، مدتوں پرانی ایک صبح کا منظر ٹہرا ہوا ہے
جہاں ہم رات کے لباس سے، اپنے جسموں کو ڈھانپ رہے ہیں
اس کی آنکھیں اس طرح کھلی ہوئی ہیں
جسے آنکھوں کی اس جھیل میں کئی چاندا ور سورج ڈوب چکے ہں
رقص کی تھکن کو ہم نے اپنے ہاتھوں پر باندھ رکھا ہے
دوستوں کی شور مچاتی گرمجوشی کب کی خاموش ہو چکی ہے
چائے کی ٹوٹی ہوئی پیالیاں اور پھول فرش پر بکھرے پڑے ہیں
اس منظر میں
ہم گہری نیند سے ،جاگتے خوابوں تک سفر کررہے ہیں
دھکتی سانسوں اور پیاسے جسموں کے
نشبہ و فراز کے درما ن کی گئی سرگوشا ں
دریچوں پر کھِلے پھولوں کے ساتھ لپٹی ہوئی ہے اندھیرے میں
مدغم جسموں سے اٹھنے والی حرارت
اپنی مٹھا س آھستہ آھستہ ہماری روحوں میں گھول رہی ہے
گزرتے وقت کی چاپ سے بیدا ر ہو کر
ہم سوچ رہے ہیں کہ ہمارے ملن کی یہ آخری رات ہے anwer7star
جہاں ہم رات کے لباس سے، اپنے جسموں کو ڈھانپ رہے ہیں
اس کی آنکھیں اس طرح کھلی ہوئی ہیں
جسے آنکھوں کی اس جھیل میں کئی چاندا ور سورج ڈوب چکے ہں
رقص کی تھکن کو ہم نے اپنے ہاتھوں پر باندھ رکھا ہے
دوستوں کی شور مچاتی گرمجوشی کب کی خاموش ہو چکی ہے
چائے کی ٹوٹی ہوئی پیالیاں اور پھول فرش پر بکھرے پڑے ہیں
اس منظر میں
ہم گہری نیند سے ،جاگتے خوابوں تک سفر کررہے ہیں
دھکتی سانسوں اور پیاسے جسموں کے
نشبہ و فراز کے درما ن کی گئی سرگوشا ں
دریچوں پر کھِلے پھولوں کے ساتھ لپٹی ہوئی ہے اندھیرے میں
مدغم جسموں سے اٹھنے والی حرارت
اپنی مٹھا س آھستہ آھستہ ہماری روحوں میں گھول رہی ہے
گزرتے وقت کی چاپ سے بیدا ر ہو کر
ہم سوچ رہے ہیں کہ ہمارے ملن کی یہ آخری رات ہے anwer7star
میں ہمیشہ زندگی سے زیادہ موت کے سحر میں گرفتار رہا اور جب میں نے خود کا ایک بلند جگہ پایا
لوگوں کی آوازوں کو شور مچاتے سنا ،کہ رک جاؤ
آگے مت جاؤ
تو ایک مسکراہٹ میرے چہرے پر پھیل گئی
کئی ہاتھ مجھے بچانے کے لئے آگے بڑھے
جنہیں پکڑ کر میں واپس محفوظ دنیا کی طرف لوٹ آتا
مگر
میرے ہاتھ ان کی گرفت تک نہیں پہنچ سکے
میں نے سوچا اور
اپنے ہونٹ پر موت کی پیاس کو شدت سے محسوس کیا
میں موت سے بہت قریب کھڑا ہوں
ایک بلند جگہ جہاں سے گرنے کی خواہش
آج میرے وجود کی گرفت سے آزاد ہوگئی
میں نے اپنے آس پاس پھیلی تاریک خلاء میں پیر رکھ دیا
زمیں پر گرنے تک
میرے وجود ہوا میں تیر تا رہا
اس پرواز میں جس لمس کو میں نے محسوس کیا
وہ میری ماں کا لمس ہے
اس کی آواز میں ایک پکار ہے
زندگی کی تنہائی سے ٹوٹ کر میں اپنی ماں کی آغوش میں گرتا جا رہا ہوں
زمین پر بکھرے میرے لہولہاں وجود پر
کھلی ہو ئی آنکھوں میں پھیلی آسودگی
میرے اپنوں کو ہمیشہ یاد رہے گی Muhammad Anwer
لوگوں کی آوازوں کو شور مچاتے سنا ،کہ رک جاؤ
آگے مت جاؤ
تو ایک مسکراہٹ میرے چہرے پر پھیل گئی
کئی ہاتھ مجھے بچانے کے لئے آگے بڑھے
جنہیں پکڑ کر میں واپس محفوظ دنیا کی طرف لوٹ آتا
مگر
میرے ہاتھ ان کی گرفت تک نہیں پہنچ سکے
میں نے سوچا اور
اپنے ہونٹ پر موت کی پیاس کو شدت سے محسوس کیا
میں موت سے بہت قریب کھڑا ہوں
ایک بلند جگہ جہاں سے گرنے کی خواہش
آج میرے وجود کی گرفت سے آزاد ہوگئی
میں نے اپنے آس پاس پھیلی تاریک خلاء میں پیر رکھ دیا
زمیں پر گرنے تک
میرے وجود ہوا میں تیر تا رہا
اس پرواز میں جس لمس کو میں نے محسوس کیا
وہ میری ماں کا لمس ہے
اس کی آواز میں ایک پکار ہے
زندگی کی تنہائی سے ٹوٹ کر میں اپنی ماں کی آغوش میں گرتا جا رہا ہوں
زمین پر بکھرے میرے لہولہاں وجود پر
کھلی ہو ئی آنکھوں میں پھیلی آسودگی
میرے اپنوں کو ہمیشہ یاد رہے گی Muhammad Anwer
بند کھڑکیاں تم کون ہو ؟
میرے ہم زبان ہو
کہ میرے ہم وطن ہو
مجھے محبت کے کسی رشتہ میں پرودو
میرے سرد ہاتھوں کو
اپنے ہاتھوں میں تھام لو
میرا چہرہ ابھی مٹا نہیں ہے
تم کون ہو؟
میرے ہم زبان ہو
تو محبت کا کوئی نغمہ سکھاو
میرے ہم وطن ہو
تو میرے سر کی چھت کہ گراو
میرے ہم مذہب ہو
تو میرا خون تم پر حرام ہے
میں بند گلی میں پھنسا ہوں
اپنی کھڑکی تو کھولو
میرے لئے کوئی راستہ تو چھوڑو Muhammad Anwer
میرے ہم زبان ہو
کہ میرے ہم وطن ہو
مجھے محبت کے کسی رشتہ میں پرودو
میرے سرد ہاتھوں کو
اپنے ہاتھوں میں تھام لو
میرا چہرہ ابھی مٹا نہیں ہے
تم کون ہو؟
میرے ہم زبان ہو
تو محبت کا کوئی نغمہ سکھاو
میرے ہم وطن ہو
تو میرے سر کی چھت کہ گراو
میرے ہم مذہب ہو
تو میرا خون تم پر حرام ہے
میں بند گلی میں پھنسا ہوں
اپنی کھڑکی تو کھولو
میرے لئے کوئی راستہ تو چھوڑو Muhammad Anwer
سیا ہ ہاتھ اور جگنو ظلم کی سیاہ رات کو
اجلا بنانے کی خواہش کرنے والے
شہیدوں کا لہو
دشمن کی آستینوں پر ایک روز
ضرور چمکے گا
ظلم کی زنجیر کو توڑنے کے لئے
جو آوازیں کل نعرہ بنی تھیں
آھنی ہاتھوں نے آج انہیں
سنگلاخ دیواروں کے پیچھے
دھکیل دیا ہے
مگر ایک ایسی نیک ساعت طلوع
ہونے والی ہے
جب ظلم کے یہ سیاہ ہاتھ
اڑنے والے جگنووں
اور بھلادی جانے والی
آوازوں کی بازگشت کو
روک نہیں سکیں گے Muhammad Anwer
اجلا بنانے کی خواہش کرنے والے
شہیدوں کا لہو
دشمن کی آستینوں پر ایک روز
ضرور چمکے گا
ظلم کی زنجیر کو توڑنے کے لئے
جو آوازیں کل نعرہ بنی تھیں
آھنی ہاتھوں نے آج انہیں
سنگلاخ دیواروں کے پیچھے
دھکیل دیا ہے
مگر ایک ایسی نیک ساعت طلوع
ہونے والی ہے
جب ظلم کے یہ سیاہ ہاتھ
اڑنے والے جگنووں
اور بھلادی جانے والی
آوازوں کی بازگشت کو
روک نہیں سکیں گے Muhammad Anwer
ہم چیخنا چاہتے ہیں یہ زندگی سے ناراض رویہ ہے
ہر صبح آواز قتل کر دی جاتی ہے
تو ساراشہر خاموش ہوجاتا ہے
کسی کو گرنے سے بچانے کے لئے
ہم چیخنا چاہتے ہیں
مگر ایک ایسی تصویر بن جاتے ہیں
جس میں خاموشی کو قید کر دیا جاتا ہے
ہم تہہ در تہہ
کسی اجنبی سمت اتر جاتے ہیں
الجھی سوچوں کے ہمراہ
اب وقت کا دائرہ بھی
جائے اماں نہیں ہے کہ
محبت کی اجلی روشنی
رنگوں اور خوابوں کے درخت سے
ٹوٹ چکی ہے اکمل نوید
ہر صبح آواز قتل کر دی جاتی ہے
تو ساراشہر خاموش ہوجاتا ہے
کسی کو گرنے سے بچانے کے لئے
ہم چیخنا چاہتے ہیں
مگر ایک ایسی تصویر بن جاتے ہیں
جس میں خاموشی کو قید کر دیا جاتا ہے
ہم تہہ در تہہ
کسی اجنبی سمت اتر جاتے ہیں
الجھی سوچوں کے ہمراہ
اب وقت کا دائرہ بھی
جائے اماں نہیں ہے کہ
محبت کی اجلی روشنی
رنگوں اور خوابوں کے درخت سے
ٹوٹ چکی ہے اکمل نوید
آج تھرکی صحرائی زندگی کے لئے ہمیں جاگنا ہو گا صدیو ں سے تھر کی تپتی ریت پر
مور اپنےرقص کرتے رنگوں کو
قوس و قزح کی صورت زمین پر بکھر رہے ہیں
آج حد نظر تک
کوئی بھی پرندہ آسمان کی وسعتوں کو چھوتا نظر نہیں آ رہا ہے
زیست کی نمی
پاتال کی گہرائیوں میں کہیں چھپ گئی ہے
جہاں تک پہنچتے پہنچتے
درختوں کی صدیوں تک پھیلی جڑیں
اپنا وجود کھو تی جارہی ہیں
تپتے صحرا میں نمو پاتی زندگی
گہرے رنگوں کے آنچلوں کے پیچھے خاموش ہے
گہری کالی آنکھیں آج خود سے بہت ناراض ہیں
ان کے لب سلے ہوئے ہیں
کوئی بھی چیخ شکوہ بن کر ان کے ہونٹوں سےنہیں گرتی
ماؤں کی بھوکی کوکھ سے
ان کی اجڑی گود تک
درختوں سے ٹوٹے ہوئے پھولوں کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں
وہ چیخ جو گھٹن بن کر
ان کے زندہ وجود کو نگلتی جار رہی ہے
کانٹوں کی فصل بن کر
ان چھوئے احساس کو لہولہاں کر رہی ہے
جن پھولو ں کو ماؤں کی گود سے اتر کر
بھوک اور غربت کے سیاہ زندانوں سے ٹکرانا تھا
انہو ں نے اپنی پیاس کو ہمیشہ ریت کی صراحی میں قید پایا
آج وہ اپنی ہی سانسوں کی ڈور سے الجھ کر دم توڑ رہے ہیں
آج تھر کا صحرا
بارشوں کے جل تھل کے انتظار میں تھک کر
ہمارے خوابوں کی دہلیز تک پہچ گیا ہے
اس کے پہلے کہ
خواب اور نیند
مو ت کی خاموشی کو چھو لیں
ہمیں جاگنا ہو گا
اکمل نوید (anwer7star) اکمل نوید
مور اپنےرقص کرتے رنگوں کو
قوس و قزح کی صورت زمین پر بکھر رہے ہیں
آج حد نظر تک
کوئی بھی پرندہ آسمان کی وسعتوں کو چھوتا نظر نہیں آ رہا ہے
زیست کی نمی
پاتال کی گہرائیوں میں کہیں چھپ گئی ہے
جہاں تک پہنچتے پہنچتے
درختوں کی صدیوں تک پھیلی جڑیں
اپنا وجود کھو تی جارہی ہیں
تپتے صحرا میں نمو پاتی زندگی
گہرے رنگوں کے آنچلوں کے پیچھے خاموش ہے
گہری کالی آنکھیں آج خود سے بہت ناراض ہیں
ان کے لب سلے ہوئے ہیں
کوئی بھی چیخ شکوہ بن کر ان کے ہونٹوں سےنہیں گرتی
ماؤں کی بھوکی کوکھ سے
ان کی اجڑی گود تک
درختوں سے ٹوٹے ہوئے پھولوں کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں
وہ چیخ جو گھٹن بن کر
ان کے زندہ وجود کو نگلتی جار رہی ہے
کانٹوں کی فصل بن کر
ان چھوئے احساس کو لہولہاں کر رہی ہے
جن پھولو ں کو ماؤں کی گود سے اتر کر
بھوک اور غربت کے سیاہ زندانوں سے ٹکرانا تھا
انہو ں نے اپنی پیاس کو ہمیشہ ریت کی صراحی میں قید پایا
آج وہ اپنی ہی سانسوں کی ڈور سے الجھ کر دم توڑ رہے ہیں
آج تھر کا صحرا
بارشوں کے جل تھل کے انتظار میں تھک کر
ہمارے خوابوں کی دہلیز تک پہچ گیا ہے
اس کے پہلے کہ
خواب اور نیند
مو ت کی خاموشی کو چھو لیں
ہمیں جاگنا ہو گا
اکمل نوید (anwer7star) اکمل نوید
امکانات سے باہر امکانات سے باہر
سورج کی روشنی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے
تم سے ہم آغوش ہونے کے خیال کو
میں نے کبھی بوسیدہ ہونے نہیں دیا
خواب اور خیال
کبھی خواب گاہ سے باہر نہیں نکلے
سورج کی روشنی
جب بھی ستاروں بھرے آنچل میں پناہ لیتی ہے
تو میں اس یقین کو کبھی نہیں جھٹلا سکا
کہ تم نے مجھے چھو کر گہری نیند سے جگا دیا ہے
اس یقین کو اپنے خون کے اندر
انگاروں کی طرح دہکتا ہوا محسوس کیاہے
امکانات سے باہر
محسوس کیا جانے والا
ہم آغوشی کا لمحہ
آج تیز ہوا میں
میرے ساتھ اڑ رہا ہے Muhammad Anwer
سورج کی روشنی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے
تم سے ہم آغوش ہونے کے خیال کو
میں نے کبھی بوسیدہ ہونے نہیں دیا
خواب اور خیال
کبھی خواب گاہ سے باہر نہیں نکلے
سورج کی روشنی
جب بھی ستاروں بھرے آنچل میں پناہ لیتی ہے
تو میں اس یقین کو کبھی نہیں جھٹلا سکا
کہ تم نے مجھے چھو کر گہری نیند سے جگا دیا ہے
اس یقین کو اپنے خون کے اندر
انگاروں کی طرح دہکتا ہوا محسوس کیاہے
امکانات سے باہر
محسوس کیا جانے والا
ہم آغوشی کا لمحہ
آج تیز ہوا میں
میرے ساتھ اڑ رہا ہے Muhammad Anwer