Poetries by Bakhtiar Nasir
نعت رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ذوق بطحا نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ تمنا نہیں تو کچھ بھی نہیں
جالیاں سامنے ہوں دوضے کی
یہ نظارہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
جاں دوں جا کے ان کی چوکھٹ پر
یہ ارادہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
داغ عشق نبی زہے نصیب
یہ نگینہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
مال'اولاد' جان سے بڑھ کر
عشق ان کا نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ سمجھ لو کہ دل کی رگ رگ میں
گر مدینہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
عشق احمد ہے حاصل کونین
گر یہ سمجھا نہیں تو کچھ بھی نہیں
میرا عالم عجیب ہے بہزاد
آنکھ والا نہیں تو تو کچھ بھی نہیں Bakhtiar Nasir
یہ تمنا نہیں تو کچھ بھی نہیں
جالیاں سامنے ہوں دوضے کی
یہ نظارہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
جاں دوں جا کے ان کی چوکھٹ پر
یہ ارادہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
داغ عشق نبی زہے نصیب
یہ نگینہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
مال'اولاد' جان سے بڑھ کر
عشق ان کا نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ سمجھ لو کہ دل کی رگ رگ میں
گر مدینہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
عشق احمد ہے حاصل کونین
گر یہ سمجھا نہیں تو کچھ بھی نہیں
میرا عالم عجیب ہے بہزاد
آنکھ والا نہیں تو تو کچھ بھی نہیں Bakhtiar Nasir
خدا مجھ پر بھی وقت سعد لائے خدا مجھ پر بھی وقت سعد لائے
مری نس نس میں اللہ سمائے
خدا کے فضل سے ہو قلب جاری
زباں پر بھی خدا کا نام آئے
خدا بیدار کر دے بخت میرے
مرا سویا نصیبہ بھی جگائے
ہے ویراں جس کسی کا خانئہ دل
خدا کی یاد سے دل کو سجائے
خدا کا ذکر ہو جس گھر میں پیہم
سدا ابر کرم اس گھر پہ چھائے
مری فریاد پہنچائے خدارا
خدا کے گھر جو عاشق زار جائے
ظفر! الطاف محبوب خدا کے
رہیں قائم سدا امت پہ سائے Bakhtiar Nasir
مری نس نس میں اللہ سمائے
خدا کے فضل سے ہو قلب جاری
زباں پر بھی خدا کا نام آئے
خدا بیدار کر دے بخت میرے
مرا سویا نصیبہ بھی جگائے
ہے ویراں جس کسی کا خانئہ دل
خدا کی یاد سے دل کو سجائے
خدا کا ذکر ہو جس گھر میں پیہم
سدا ابر کرم اس گھر پہ چھائے
مری فریاد پہنچائے خدارا
خدا کے گھر جو عاشق زار جائے
ظفر! الطاف محبوب خدا کے
رہیں قائم سدا امت پہ سائے Bakhtiar Nasir
بدلتے وقت کے کرشمے لوڈ شیڈنگ کی عجب برکات ہیں
ایک جیسے اپنے دن اور رات ہیں
ہو گیا دورانیہ کچھ کم سہی
کم نہ ہو پائے مگر اثرات ہیں
گھر کا میٹر ایک ہے پھر بھی مگر
بل میں شامل ٹیکس چھ یا سات ہیں
کوئی بھی فنکشن ہو چھوٹا یا بڑا
ہو رہے زیر و زبر اوقات ہیں
شام میں پھیلے اندھیروں کے طفیل
پھیکے پھیکے سارے معمولات ہیں
جب سے ٹیکنالوجی نے پایا ہے فروغ
ہر طرف منڈلا رہے خطرات ہیں
Net پہ چیٹنگ نے بڑھائیں قربتیں
فیس بک کے لائے ہوئے ثمرات ہیں
بڑھ رہی ہے دن بدن آلودگی
ختم ہوٹے جا رہے باغات ہیں
آنے والی ہر حکومت نے کہا
سب مسائل پچھلوں کی سوغات ہیں
ہو چکی تبدیل سب دنیا ضیاء
اپنے جیسے تھے وہی حالات ہیں Bakhtiar Nasir
ایک جیسے اپنے دن اور رات ہیں
ہو گیا دورانیہ کچھ کم سہی
کم نہ ہو پائے مگر اثرات ہیں
گھر کا میٹر ایک ہے پھر بھی مگر
بل میں شامل ٹیکس چھ یا سات ہیں
کوئی بھی فنکشن ہو چھوٹا یا بڑا
ہو رہے زیر و زبر اوقات ہیں
شام میں پھیلے اندھیروں کے طفیل
پھیکے پھیکے سارے معمولات ہیں
جب سے ٹیکنالوجی نے پایا ہے فروغ
ہر طرف منڈلا رہے خطرات ہیں
Net پہ چیٹنگ نے بڑھائیں قربتیں
فیس بک کے لائے ہوئے ثمرات ہیں
بڑھ رہی ہے دن بدن آلودگی
ختم ہوٹے جا رہے باغات ہیں
آنے والی ہر حکومت نے کہا
سب مسائل پچھلوں کی سوغات ہیں
ہو چکی تبدیل سب دنیا ضیاء
اپنے جیسے تھے وہی حالات ہیں Bakhtiar Nasir
ہائے ہائے کیوں “ دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں“
قلب کا تھا جو عارضہ آپ نے پائے کھائے کیوں
بکتے ہیں جا بجا وہاں حلوہ ‘ ہریسہ و حلیم
“ جس کو ہوں جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں“
بڑھ جو گیا کولیسٹرول کرنا تھا اس کو کنٹرول
عید پہ کھائ آپ نے مرغ کی جا پہ گائے کیوں
گولی یہ ہارٹ اٹیک کی رکھنی تھی نیچے جیبھ کے
آپ بغیر بوچھے ہی اس کو زباں پہ لائے کیوں
دوں گا دوا بخار کی ‘ پہلے مگر بتاؤ تو
رات کو سردیوں میں تم در آب یخ نہائے کیوں
پی کے شراب چوک میں کرتے رہے ہو ہاؤ ہو
اب جو ہو دھر لئےگئے کرتے ہو ہائے ہائے کیوں Bakhtiar Nasir
قلب کا تھا جو عارضہ آپ نے پائے کھائے کیوں
بکتے ہیں جا بجا وہاں حلوہ ‘ ہریسہ و حلیم
“ جس کو ہوں جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں“
بڑھ جو گیا کولیسٹرول کرنا تھا اس کو کنٹرول
عید پہ کھائ آپ نے مرغ کی جا پہ گائے کیوں
گولی یہ ہارٹ اٹیک کی رکھنی تھی نیچے جیبھ کے
آپ بغیر بوچھے ہی اس کو زباں پہ لائے کیوں
دوں گا دوا بخار کی ‘ پہلے مگر بتاؤ تو
رات کو سردیوں میں تم در آب یخ نہائے کیوں
پی کے شراب چوک میں کرتے رہے ہو ہاؤ ہو
اب جو ہو دھر لئےگئے کرتے ہو ہائے ہائے کیوں Bakhtiar Nasir
میں نےکہا ‘ اس نے کہا میں نے کہا کہ رات سے بجلی بھی بند ہے
اس نے کہا کہ ہاتھ سے پنکھا جھلا کرو
میں نے کہا کہ شہر میں پانی کا قحط ہے
اس نے کہا کہ پیپسی کولا پیا کرو
میں نے کہا کہ کار ڈکیتوں نےچھین لی
اس نے کہا کہ اچھا ہے پیدل چلا کرو
میں نے کہا کہ سو کی بھی گنتی نہیں ہے یاد
اس نے کہا کہ رات کو تارے گنا کرو
میں نے کہا غزل پڑھی جاتی نہیں صحیح
اس نے کہا کہ پہلے ریہرسل کیا کرو
ہر بات پر جو کہتا رہا میں “ بجا ! بجا! “
اس نے کہا یونہی مسلسل بجا کرو Bakhtiar Nasir
اس نے کہا کہ ہاتھ سے پنکھا جھلا کرو
میں نے کہا کہ شہر میں پانی کا قحط ہے
اس نے کہا کہ پیپسی کولا پیا کرو
میں نے کہا کہ کار ڈکیتوں نےچھین لی
اس نے کہا کہ اچھا ہے پیدل چلا کرو
میں نے کہا کہ سو کی بھی گنتی نہیں ہے یاد
اس نے کہا کہ رات کو تارے گنا کرو
میں نے کہا غزل پڑھی جاتی نہیں صحیح
اس نے کہا کہ پہلے ریہرسل کیا کرو
ہر بات پر جو کہتا رہا میں “ بجا ! بجا! “
اس نے کہا یونہی مسلسل بجا کرو Bakhtiar Nasir
ہائے ہائے خوب اس بت نے نباہی ہم سے یاری ہائے ہائے
جیل میں اب کر رہے ہیں آہ و زاری ہائے ہائے
تیغ ابرو زن سے کیا دل میں اتاری ہائے ہائے
دل میں یہ تو کھب گئ ساری کی ساری ہائے ہائے
ہو گئے چودہ طبق روشن توجہ سے تری
یاد ہے اب تک وہ ترا دست بھاری ہائے ہائے
جس کے چکر میں ہوا کھائ ہے نارا جیل کی
کس کے گھر میں بس گئ جا کر وہ ناری ہائے ہائے
تیسری دنیا پہ کیا موقوف ہے اب تو جناب
ساری دنیا پر ہے اس کی تھانے داری ہائے ہائے Bakhtiar Nasir
جیل میں اب کر رہے ہیں آہ و زاری ہائے ہائے
تیغ ابرو زن سے کیا دل میں اتاری ہائے ہائے
دل میں یہ تو کھب گئ ساری کی ساری ہائے ہائے
ہو گئے چودہ طبق روشن توجہ سے تری
یاد ہے اب تک وہ ترا دست بھاری ہائے ہائے
جس کے چکر میں ہوا کھائ ہے نارا جیل کی
کس کے گھر میں بس گئ جا کر وہ ناری ہائے ہائے
تیسری دنیا پہ کیا موقوف ہے اب تو جناب
ساری دنیا پر ہے اس کی تھانے داری ہائے ہائے Bakhtiar Nasir
ڈر لگتا ہے پارک ‘ سینما ‘ بازار کہیں بھی جانے سے ڈر لگتا ہے
گھر میں ہی پڑھوں خبریں ‘ باہر جانے سے ڈر لگتا ہے
نہ جانے کیا اور اور کس طرح ملایا ہوگا قصائ نے
اب تو گھر ہو یا ہوٹل ‘ گوشت کھانے سے ڈر لگتا ہے
اک بار جو روٹھ گئ بیگم شاپنگ پر نہ جانے سے
دوبارہ اب اس کو منانے سے ڈر لگتا ہے
ہر بات پہ ٹہرائے گا وہ مجھے ہی قصور وار
باس کوکوئ بھی مسلہ بتانے سے ڈر لگتا ہے Bakhtiar Nasir
گھر میں ہی پڑھوں خبریں ‘ باہر جانے سے ڈر لگتا ہے
نہ جانے کیا اور اور کس طرح ملایا ہوگا قصائ نے
اب تو گھر ہو یا ہوٹل ‘ گوشت کھانے سے ڈر لگتا ہے
اک بار جو روٹھ گئ بیگم شاپنگ پر نہ جانے سے
دوبارہ اب اس کو منانے سے ڈر لگتا ہے
ہر بات پہ ٹہرائے گا وہ مجھے ہی قصور وار
باس کوکوئ بھی مسلہ بتانے سے ڈر لگتا ہے Bakhtiar Nasir
برس ایک اور گزر گیا میں اسے یاد آیا کیوں تھا
ابر بے وقت چھایا کیوں تھا
درد ‘ حدوں سے دور نکل گیا
مرہم بے اثر ‘ لگایا کیوں تھا
طوفاں سےشناسا ‘ نہ تھے مسافر
طوفاں ہی انہیں بھایا کیوں تھا
آج اسے بھلا کر دیکھ لیں
جس نے ہمیں بھلایا کیوں تھا
اسنے دن اپنے گزارے ‘ بن روئے
تبھی کہوں وہ مسکرایا کیوں تھا
برس ایک اور گزر گیا ‘ بچھڑے
ناصر اسے دیکھ پایا کیوں تھا Bakhtiar Nasir
ابر بے وقت چھایا کیوں تھا
درد ‘ حدوں سے دور نکل گیا
مرہم بے اثر ‘ لگایا کیوں تھا
طوفاں سےشناسا ‘ نہ تھے مسافر
طوفاں ہی انہیں بھایا کیوں تھا
آج اسے بھلا کر دیکھ لیں
جس نے ہمیں بھلایا کیوں تھا
اسنے دن اپنے گزارے ‘ بن روئے
تبھی کہوں وہ مسکرایا کیوں تھا
برس ایک اور گزر گیا ‘ بچھڑے
ناصر اسے دیکھ پایا کیوں تھا Bakhtiar Nasir
جنت کا پھول جب بھی ذکر رسول ہوتا ہے
رحمتوں کا نزول ہوتا ہے
کیف سے پر درود لمحوں میں
جو بھی مانگو قبول ہوتا ہے
مختصر سی کریم گھڑیوں میں
کرم ان کا بھی طول ہوتا ہے
ان کی اطاعت میں عشق صادق ہے
پیار کامل اصول ہوتا ہے
اہل دل کے لئے مدینے کا
خار جنت کا پھول ہوتا ہے
نعت پڑھتا ہوں خوب کثرت سے
جب ذرا دل ملول ہوتا ہے
سانس وہ جو قمر مدح میں کٹے
ویسے جینا فضول ہوتا ہےجج Bakhtiar Nasir
رحمتوں کا نزول ہوتا ہے
کیف سے پر درود لمحوں میں
جو بھی مانگو قبول ہوتا ہے
مختصر سی کریم گھڑیوں میں
کرم ان کا بھی طول ہوتا ہے
ان کی اطاعت میں عشق صادق ہے
پیار کامل اصول ہوتا ہے
اہل دل کے لئے مدینے کا
خار جنت کا پھول ہوتا ہے
نعت پڑھتا ہوں خوب کثرت سے
جب ذرا دل ملول ہوتا ہے
سانس وہ جو قمر مدح میں کٹے
ویسے جینا فضول ہوتا ہےجج Bakhtiar Nasir
عاشق اور گلی یہ گلی بہت لمبی چوڑی ہے
دکھ زیادہ یاں‘ خوشی تھوڑی ہے
چھوڑ دئیے سب دھندے عاشق نے
سگ لیلی سے پریت جوڑی ہے
صبح یہیں گزرے شام یہیں بیتے
خون پیا اور چپل یاں توڑی ہے
ملنے کا امکاں تو معدوم ہے
پھر بھی گردن ہر سو موڑی ہے
آتے جاتوں کا حساب رکھا ہے
جگر جلایا ہے‘ نظر پھوڑی ہے
اب وہ سر بام آ جائیں گے
یہ کس نے ہوائ چھوڑی ہے؟
ایسی دیوانگی کا کیا کیجئیے
عاشق ہے اور یہ گلی نگوڑی ہے Bakhtiar Nasir
دکھ زیادہ یاں‘ خوشی تھوڑی ہے
چھوڑ دئیے سب دھندے عاشق نے
سگ لیلی سے پریت جوڑی ہے
صبح یہیں گزرے شام یہیں بیتے
خون پیا اور چپل یاں توڑی ہے
ملنے کا امکاں تو معدوم ہے
پھر بھی گردن ہر سو موڑی ہے
آتے جاتوں کا حساب رکھا ہے
جگر جلایا ہے‘ نظر پھوڑی ہے
اب وہ سر بام آ جائیں گے
یہ کس نے ہوائ چھوڑی ہے؟
ایسی دیوانگی کا کیا کیجئیے
عاشق ہے اور یہ گلی نگوڑی ہے Bakhtiar Nasir
ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام لا کر برہمنوں کو سیاست کے پیچ میں
زناریوں کو دیر کہن سے نکال دو
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزار ختن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگے تیز
ایسے غزل سرا چمن سے نکال دو Bakhtiar Nasir
زناریوں کو دیر کہن سے نکال دو
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزار ختن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگے تیز
ایسے غزل سرا چمن سے نکال دو Bakhtiar Nasir
مان لے ہار ان کی چاہت ہے اب بے کار
جا بسے سنگ کسی کے جو سمندر پار
پھول سے چہرے کب پھول دیں
کھب جاتے ہیں بن کے خار
خیال آ جاتا ہے اس چاہ کا
کرنے لگتا ہے جب کوئ پیار
خود کی قدر کیا جانیں ہم
اجڑ گیا ہستی کا یہ بازار
مسرت کے معنی کیا سمجھیں
ان بن نہیں ہوتی بہار
کیسے بھول پائیں گے اس
روح کی مہکار‘ لفظوں کی جھنکار
معجزہ کی نہ رکھ امید ناصر
وقت کہتا ہے “ مان لے ہار“ Bakhtiar Nasir
جا بسے سنگ کسی کے جو سمندر پار
پھول سے چہرے کب پھول دیں
کھب جاتے ہیں بن کے خار
خیال آ جاتا ہے اس چاہ کا
کرنے لگتا ہے جب کوئ پیار
خود کی قدر کیا جانیں ہم
اجڑ گیا ہستی کا یہ بازار
مسرت کے معنی کیا سمجھیں
ان بن نہیں ہوتی بہار
کیسے بھول پائیں گے اس
روح کی مہکار‘ لفظوں کی جھنکار
معجزہ کی نہ رکھ امید ناصر
وقت کہتا ہے “ مان لے ہار“ Bakhtiar Nasir
ماں کی عظمت ماں کی عظمت کریں کیسے بیاں
اس کا معترف ہے سارا جہاں
اولاد کو جو بہت محبوب ہے
مثال ممتا تو چٹانوں سے منسوب ہے
بچوں کا دکھ نہ دیکھ پائے
ان کے سو سو ناز اٹھائے
بچوں کی ہے پرواہ خود دکھی ہے
خدا نے کیا شان رکھی ہے
کئ اکابر نے کیا اظہار خیال
یہ جذبہ ہے جگ میں بے مثال
ماں ک دعا تو لینی چاہئیے
اس کی خدمت بس کرنی چاہئیے
ناصر کا ہے بس یہی پیام
ماں کی چاہئیے اطاعت ہر گام Bakhtiar Nasir
اس کا معترف ہے سارا جہاں
اولاد کو جو بہت محبوب ہے
مثال ممتا تو چٹانوں سے منسوب ہے
بچوں کا دکھ نہ دیکھ پائے
ان کے سو سو ناز اٹھائے
بچوں کی ہے پرواہ خود دکھی ہے
خدا نے کیا شان رکھی ہے
کئ اکابر نے کیا اظہار خیال
یہ جذبہ ہے جگ میں بے مثال
ماں ک دعا تو لینی چاہئیے
اس کی خدمت بس کرنی چاہئیے
ناصر کا ہے بس یہی پیام
ماں کی چاہئیے اطاعت ہر گام Bakhtiar Nasir
بے قراری میں تیرے پاس ہوں مجھ سے نظر ملا تو سہی
ہے مجھ سے دور کیوں اتنا قریب آ تو سہی
ہوا سے اڑتا ہے آنچل تو اس کو اڑنے دے
چپھا کے رکھا ہےکیا کیا ذرا دکھا تو سہی
قرار آیے نہ تجھ کو تو پھر مجھے کہنا
میرے لبوں سے لبوں کو ذرا ملا تو سہی
بکھر کے آ میری باہنوں میں ایک شب کے لئے
تو اپنے آپ سے پردہ کبھی اٹھا تو سہی
میں اپنے پیار سے تجھ کو نہال کر دوں گا
تو میرے پیار کی شدت کو آزما تو سہی
میں سارےدکھ ترے شکوے گلے مٹا دوں گا
تو ایک بار گلے سے مجھے لگا تو سہی
کیا ہے تو نے جو رسوا تو غم نہیں عاجز
کہ تیرے عشق میں ہونا تھا جو ہوا تو سہی Bakhtiar Nasir
ہے مجھ سے دور کیوں اتنا قریب آ تو سہی
ہوا سے اڑتا ہے آنچل تو اس کو اڑنے دے
چپھا کے رکھا ہےکیا کیا ذرا دکھا تو سہی
قرار آیے نہ تجھ کو تو پھر مجھے کہنا
میرے لبوں سے لبوں کو ذرا ملا تو سہی
بکھر کے آ میری باہنوں میں ایک شب کے لئے
تو اپنے آپ سے پردہ کبھی اٹھا تو سہی
میں اپنے پیار سے تجھ کو نہال کر دوں گا
تو میرے پیار کی شدت کو آزما تو سہی
میں سارےدکھ ترے شکوے گلے مٹا دوں گا
تو ایک بار گلے سے مجھے لگا تو سہی
کیا ہے تو نے جو رسوا تو غم نہیں عاجز
کہ تیرے عشق میں ہونا تھا جو ہوا تو سہی Bakhtiar Nasir
آب و آتش آئے گی ‘ روشنی کو آنا ہے
یہ اٹل ہے کہ شب کو جانا ہے
یہ کمال اب ہمیں دکھانا ہے
آندھیوں میں دیا جلانا ہے
اپنا حق مانگتے ہیں کانٹے بھی
قرض پھولوں کا بھی چکانا ہے
ان تضادات سے نہ ڈر کہ چمن
آب و آتش کا کارخانہ ہے
اک نئ رت کی آس میں ہم کو
خشک پیڑوں کو بھی بچانا ہے
آج پھر پتھروں ی بستی میں
ہم کو آئینہ لے کے جانا ہے Bakhtiar Nasir
یہ اٹل ہے کہ شب کو جانا ہے
یہ کمال اب ہمیں دکھانا ہے
آندھیوں میں دیا جلانا ہے
اپنا حق مانگتے ہیں کانٹے بھی
قرض پھولوں کا بھی چکانا ہے
ان تضادات سے نہ ڈر کہ چمن
آب و آتش کا کارخانہ ہے
اک نئ رت کی آس میں ہم کو
خشک پیڑوں کو بھی بچانا ہے
آج پھر پتھروں ی بستی میں
ہم کو آئینہ لے کے جانا ہے Bakhtiar Nasir
درودوں کی بارش مصطفی کی آمد تھی جشن تھا بپا ہر سو
عکس مصطفی میں تھا جلوہ گر خدا ہر سو
مشکبو فضائیں تھیں بے بہا عطائیں تھیں
خوشبوئیں لٹاتی تھی دہر میں ہوا ہر سو
حور و غلماں جن و انس ‘ خود خدا ملائک بھی
مدہتوں میں کھوئے تھے ان کی تھی ثنا ہر سو
آپ پر درودوں کی بارشوں کا موسم تھا
گونجتی تھی عالم میں ایک ہی صدا ہر سو
رحمت للعالمین جب جلیل آئے تو
رحمتوں کی دنیا میں چھا گئی گھٹا ہر سو Bakhtiar Nasir
عکس مصطفی میں تھا جلوہ گر خدا ہر سو
مشکبو فضائیں تھیں بے بہا عطائیں تھیں
خوشبوئیں لٹاتی تھی دہر میں ہوا ہر سو
حور و غلماں جن و انس ‘ خود خدا ملائک بھی
مدہتوں میں کھوئے تھے ان کی تھی ثنا ہر سو
آپ پر درودوں کی بارشوں کا موسم تھا
گونجتی تھی عالم میں ایک ہی صدا ہر سو
رحمت للعالمین جب جلیل آئے تو
رحمتوں کی دنیا میں چھا گئی گھٹا ہر سو Bakhtiar Nasir
ماہ رمضان آ گیا رب سے اب دل کو لگاؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا
روح کو نغمے سناؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا
دوستو خوشیاں مناؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا
آؤ میرے ساتھ گاؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا
رونقیں جاگیں گی ‘ کیا کیا رات کے پچھلے پہر
سب کو سحری میں اٹھاؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا
نعمتیں ہی نعمتیں اب ہونگی دستر خوان پر
خوب افطاری بناؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا
مسجدوں میں رونقیں حد سے سوا ہو جائیں گی
دوستوں کو ساتھ لاؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا
جاؤ افطار و سحر کے واسطے بازار سے
نعمتیں سب لے کے آؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا
روزہ رکھو اور نمازیں بھی پڑھو دل سے ندیم
نیکیاں بھی اب کماؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا Bakhtiar Nasir
روح کو نغمے سناؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا
دوستو خوشیاں مناؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا
آؤ میرے ساتھ گاؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا
رونقیں جاگیں گی ‘ کیا کیا رات کے پچھلے پہر
سب کو سحری میں اٹھاؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا
نعمتیں ہی نعمتیں اب ہونگی دستر خوان پر
خوب افطاری بناؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا
مسجدوں میں رونقیں حد سے سوا ہو جائیں گی
دوستوں کو ساتھ لاؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا
جاؤ افطار و سحر کے واسطے بازار سے
نعمتیں سب لے کے آؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا
روزہ رکھو اور نمازیں بھی پڑھو دل سے ندیم
نیکیاں بھی اب کماؤ ‘ ماہ رمضان آ گیا Bakhtiar Nasir