Poetries by Ch. Tahir Ubaid Taj
یا دوست ہی پہلے سا عناں گیر نہیں ہے یا دوست ہی پہلے سا عناں گیر نہیں ہے
یا دستِ مسیحا میں وہ تاثیر نہیں ہے
کیا رقصِ جنوں سے ہو کرامت کی توقع
کہ پائوں میں اب حلقہء زنجیر نہیں ہے
خیرہ ہوئی جاتی ہے نظر، نظرِ کرم سے
یہ عاجزی میری، کوئی تقصیر نہیں ہے
یا میں ہُوا الفاظ کا پابند زیادہ
یا شاعری جذبات کی تشہیر نہیں ہے
نقادِ ہنر نہ مجھے لفظوں سے سزا دے
ہے موئے سخن، آنکھ میں شہتیر نہیں ہے
اے ملکِ خداداد کے حاکم تُو سمجھ رکھ
یہ ملک تیرے باپ کی جاگیر نہیں ہے
ہے طرزِ تغافل سے بھرا طرزِ تکلم
کہنے کو تاجؔ مسئلہ گھمبیر نہیں ہے Chaudhry Tahir Ubaid Taj
یا دستِ مسیحا میں وہ تاثیر نہیں ہے
کیا رقصِ جنوں سے ہو کرامت کی توقع
کہ پائوں میں اب حلقہء زنجیر نہیں ہے
خیرہ ہوئی جاتی ہے نظر، نظرِ کرم سے
یہ عاجزی میری، کوئی تقصیر نہیں ہے
یا میں ہُوا الفاظ کا پابند زیادہ
یا شاعری جذبات کی تشہیر نہیں ہے
نقادِ ہنر نہ مجھے لفظوں سے سزا دے
ہے موئے سخن، آنکھ میں شہتیر نہیں ہے
اے ملکِ خداداد کے حاکم تُو سمجھ رکھ
یہ ملک تیرے باپ کی جاگیر نہیں ہے
ہے طرزِ تغافل سے بھرا طرزِ تکلم
کہنے کو تاجؔ مسئلہ گھمبیر نہیں ہے Chaudhry Tahir Ubaid Taj
تیری یاد توشہ درد تھی جب اٹھے تھے تیرے دیار سے تیری یاد توشہ درد تھی جب اٹھے تھے تیرے دیار سے
نہ ملی فرار کی کوئی جا غمِ زندگی کے حصار سے
وہ رفاقتوں کا ہی فیض تھا کہ کمال جس نے عطا کیا
کبھی دوستی تھی خزاں سے بھی، اب عداوتیں ہیں بہار سے
ملی خاک میں تری آبرو، تھا تو سر بسر ہمہ جستجو
جو تھا گامزن رہِ شوق پر، تجھے کیا ملا دلِ زار سے
ابھی خود نوشت بھی کیا لکھیں جو عبارتوں میں بھی کھوٹ ہو
کہ فرار کو تو نے جا بجا یوں بدل دیا ہے قرار سے
تیری چال مشقِ عروض ہے، تو غزل ہے یا کہ غزال ہے
ہے ردیف زلفِ دراز سے، ملا قافیہ لبِ یار سے
یہ وصال تاج عجیب تھا کہ کمال جس نے عطا کیا
غمِ زندگی دلِ زار سے، غمِ عاشقی دلِ یار سے Chaudhry Tahir Ubaid Taj
نہ ملی فرار کی کوئی جا غمِ زندگی کے حصار سے
وہ رفاقتوں کا ہی فیض تھا کہ کمال جس نے عطا کیا
کبھی دوستی تھی خزاں سے بھی، اب عداوتیں ہیں بہار سے
ملی خاک میں تری آبرو، تھا تو سر بسر ہمہ جستجو
جو تھا گامزن رہِ شوق پر، تجھے کیا ملا دلِ زار سے
ابھی خود نوشت بھی کیا لکھیں جو عبارتوں میں بھی کھوٹ ہو
کہ فرار کو تو نے جا بجا یوں بدل دیا ہے قرار سے
تیری چال مشقِ عروض ہے، تو غزل ہے یا کہ غزال ہے
ہے ردیف زلفِ دراز سے، ملا قافیہ لبِ یار سے
یہ وصال تاج عجیب تھا کہ کمال جس نے عطا کیا
غمِ زندگی دلِ زار سے، غمِ عاشقی دلِ یار سے Chaudhry Tahir Ubaid Taj
وہ تری یاد تھی میرے اعصاب میں اک جو فریاد تھی، وہ تری یاد تھی
اور وہم و گماں میں جو آباد تھی ، وہ تری یاد تھی
مجھ پہ طاری رہا اس کا احساس بادِ صبا کی طرح
ایسا لگتا ہے جیسے چمن زاد تھی ، وہ تری یاد تھی
اب کے یوں بھی ہوا کہ سفر نے مجھے راستہ نہ دیا
فاصلوں سے، حدوں سے جو آزاد تھی ، وہ تری یاد تھی
میرے احباب نے بھی کبھی نہ کیا وہ مرا ذکر تھا
تیرے عشاق کے لب پہ فریاد تھی ، وہ تری یاد تھی
مرحلہ کوئی تو آئے تجدید کا پھر تیری دید کا
شام محبوس تھی، سوچ برباد تھی ، وہ تری یاد تھی
کچھ بھی کرنے کو گر ٹھان لیں تو ہمیں کچھ بھی پرواہ نہیں
میرے فکر و عمل کو جو صیاد تھی ، وہ تری یاد تھی
اپنے بارے کبھی سوچتے تاج ہم بھی پہ مجبور تھے
جس نے مجنوں کیا ایک افتاد تھی ، وہ تری یاد تھی Chaudhry Tahir Ubaid Taj
اور وہم و گماں میں جو آباد تھی ، وہ تری یاد تھی
مجھ پہ طاری رہا اس کا احساس بادِ صبا کی طرح
ایسا لگتا ہے جیسے چمن زاد تھی ، وہ تری یاد تھی
اب کے یوں بھی ہوا کہ سفر نے مجھے راستہ نہ دیا
فاصلوں سے، حدوں سے جو آزاد تھی ، وہ تری یاد تھی
میرے احباب نے بھی کبھی نہ کیا وہ مرا ذکر تھا
تیرے عشاق کے لب پہ فریاد تھی ، وہ تری یاد تھی
مرحلہ کوئی تو آئے تجدید کا پھر تیری دید کا
شام محبوس تھی، سوچ برباد تھی ، وہ تری یاد تھی
کچھ بھی کرنے کو گر ٹھان لیں تو ہمیں کچھ بھی پرواہ نہیں
میرے فکر و عمل کو جو صیاد تھی ، وہ تری یاد تھی
اپنے بارے کبھی سوچتے تاج ہم بھی پہ مجبور تھے
جس نے مجنوں کیا ایک افتاد تھی ، وہ تری یاد تھی Chaudhry Tahir Ubaid Taj
سب ترے واسطے میری الفت، وفا، سب ترے واسطے
راحتوں کی دعا، سب ترے واسطے
حالِ دل سے میرے کب تو واقف نہ تھا
پھر بھی جو کچھ لکا، سب ترے واسطے
تیرے عشاق نکلے پتہ ڈھونڈنے
ہیں وہی لاپتہ سب ترے واسطے
یہ اندھیرا، سیاہی مجھے سونپ دے
رنگِ قوس قزح سب ترے واسطے
بس کہ اپنائیت کا اگر جام ہو
تو میرے ساقیا! سب ترے واسطے
ایرے غیرے جو تھے کچھ میرے آشنا
وہ تعلق بھی تھا سب ترے واسطے
آج طاہر نے اپنوں کا رکھا بھرم
کس لئے اے خدا؟ سب ترے واسطے Ch. Tahir Ubaid Taj
راحتوں کی دعا، سب ترے واسطے
حالِ دل سے میرے کب تو واقف نہ تھا
پھر بھی جو کچھ لکا، سب ترے واسطے
تیرے عشاق نکلے پتہ ڈھونڈنے
ہیں وہی لاپتہ سب ترے واسطے
یہ اندھیرا، سیاہی مجھے سونپ دے
رنگِ قوس قزح سب ترے واسطے
بس کہ اپنائیت کا اگر جام ہو
تو میرے ساقیا! سب ترے واسطے
ایرے غیرے جو تھے کچھ میرے آشنا
وہ تعلق بھی تھا سب ترے واسطے
آج طاہر نے اپنوں کا رکھا بھرم
کس لئے اے خدا؟ سب ترے واسطے Ch. Tahir Ubaid Taj