Add Poetry

Poetries by Dr.Ghulam Shabbir Rana

عہد وفا عہد وفا
نواسہ رسول نے اپنے خالق سے
کیے جانے والے عہد وفا کی پاسداری کی
گردش ایام تھمنے لگی
لیل و نہار زمانے کے عجب رنگ دکھانے لگے
اس اثنا میں
حسین ابن علی نے بہتر پھولوں کا نذرانہ رب کے حضور نثار کیا
اسلامی اقدار کو اپنے خون سے سینچ کے پروان چڑھایا
جبر کے سب انداز رد کر دیئے گئے
عہد وفا جو خالق سے تھا اس کو استوار کیا
قطع استبداد کیا اور ظلمت کو کافور کیا
اہل جفا کے جبر کے سب حربے ناکام ہوئے
مقام شبیری کو ایک ازلی صداقت کے طور پر دنیا نے تسلیم کیا
کوفی اور شامی پینترے بدل کر ہر دور میں آتے رہتے ہیں
ابن علی نے اس طرح کے مکر کا پردہ فاش کیا
زیر تیغ بھی کلمہ حق کا قوت سے اظہار کیا
دین اور دین پناہ بن کے شبیر نے فاسق کو فی النار کیا
مسافرہ شام
کربلا سے کوفہ تک کا سفر
اور پھر شام کے درباروں میں
بت زہرا نے یہ سارے دکھ برداشت کیے
اپنے نانا کا دین بچایا
بھائی اور بچوں کے سر نیزے پر دیکھے
حرف شکایت لب پہ نہ آیا
رب کی رضا پر راضی ہو کر
سارا گھر قربان کیا
شیر خدا کی بیٹی نے تاریخ کا ایک نیا عنوان لکھا
صبر کی ایسی مثال تا قیامت نہیں مل سکے گی
مسافرہ شام تاریخ ہر دور میں
تیرے عزم و ہمت کی تعظیم کرے گی
Dr.Ghulam ShabbiR Rana
تشنہ لبوں کی قربانی تشنہ لب دے گئے ہیں قربانی
دین کو جبر سے نجات ملی
کہہ گئے کلمہ حق زیر تیغ مردان حق پرست کربلا میں
اپنے جگر گوشوں کے خون سے
شجر اسلام کی آبیاری کر کے
سرخرو ہو گئے اپنے خالق کے حضور نواسہء رسول کے سب جانثار
درس یہ کربلا سے ملتا ہے
راہ حق مین جو جان دیتے ہیں
نوع انساں کی نجات کے ضامن بن جاتے ہیں
اس کا صلہ خدا سے ملتا ہے
امام حسین کی قربانی
دس محرم اکسٹھ ہجری عصر کے وقت
استبدادی قوت کے سارے رعونت کے دعوے
پل بھر میں پامال ہوئے
شیر خدا کے بیٹے نے جبر کا ہر انداز ٹھکرا کر
ظالم و سفاک استحصالی عناصر کے سب کس بل نکال دیئے
ظلم و جور کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا
عزم صمیم کر کے ابن حیدر نے
صحرا میں وہ پھول اگائے جو ابد تک
ذہنوں کو کو معطر کرتے رہیں گے
خون جگر سے پھر ان کو سیراب کیا
دل کے ٹکڑئے دے کر ان کو تابانی دی
ازلی اورابدی صداقتوں کے امیں تھے سب جانثار
جبر کے ایوانوں کو سب نے مل کر یوں مسمار کیا
ان ایوانوں میں ظلم و ستم کرنے والے
تاریک کے طوماروں میں دب گئے
حشر تک اس دنیا مین ان کا نام لیوا کوئی نہ ہو گا
Dr.Ghulam ShabbiR Rana
مرد حق پرست حسین ابن علی ظلم و جور کے سامنے
اک کوہ عزیمت بن گئے تھے
آل نبی کا گھر سارا قربان ہوا
مسکراتا چمن مہیب سناٹو ں کی زد میں آ گیا
سربریدہ لاشیں تپتی ریت پہ بکھری ہوئی تھیں
نوک سنا ں پہ سر تھے شہدا کے
بنت زہرا کے پردے کا اللہ ہی نگہبان
سارے خیمے آل نبی کے نذر آتش کر دیئے گئے
کربلا کے مظلوم قید کوفہ اور دمشق میں ہہنچے
تاریخ کے اوراق میں خوں سے لکھے یہ اوراق
آج بھی خون رلاتے ہیں
ہر دل پر خوف سا طاری ہے
ابن زیاد اور شمر اب بھی موجود ہیں
یزید چین سے اب بھی قصر شاہی پر
غاصبانہ طور پر قابض ہے
آج بھی حق گو سب کے سب معتوب ٹھہرائے جاتے ہیں
کلمہء حق کہنے والوں پر جیون بھاری ہے
فرات تیری روانی تو اب تک جاری ہے
حسین کی ذات
زینت گلستاں حسین کی ذات
روح کی راز داں حسین کی ذات
ہے ضیا بار پورے عالم پر
مانند کہکشاں حسین کی ذات
کربلا ایک استعارہ ہے
عزم و ہمت کا اک اشارہ ہے
بے کسوں کے لیے سہارا ہے
جبر کے سامنے ہو سینہ سپر
کربلا ای کاستعارہ ہے
تشنہ لب شیر خوار اور نوک سناں
بنت زہرا کا صبر سارا ہے
مشکیزہ ،تیر ،فرات اور عباس
آج تک جگر پارہ پارہ ہے
 
Dr.Ghulam ShabbiR Rana
آج کا دور آج کا دور
کربلا آج بھی درپیش ہے مظلوموں کو
شقاوت آمیز ناانصافیا ں دیکھ کلیجہ منہ کو آتا ہے
صعوبتوں کے سفر میں کاروان حسین نظر آتا ہے
اس اندھیر نگری میں اور اس بھیانک جنگل میں آج بھی
جنگل کا قانون نافذ کر کے شمر اور یزید
اپنی اندھی طاقت پر اتراتے ہیں
اہل درد ایسے میں گھبراتے ہیں
کس کے آگے جا کے پیش کریں فریاد
دیدہء گریاں اورآہ و فغاں بے اثر کر دی گئی ہے
مدعی اور منصف بن بیٹھا ہے صیاد
بڑھنے لگی ہے حد سے اب تو یہ بیداد
دانہ پانی بند کیا ہے ظالم شامیوں نے
بے رحم اور شقی ہے ابن زیاد
حریت ضمیر
یہ سوال آج بھی لمحہ فکریہ ہے کہ
میدان کربلا میں آل نبی پہ ظلم کیوں ڈھائے گئے
تشنہ لب شیر خواروں پر تیر کیوں برسائے گئے
ہے حریت ضمیر سے جینے کی ایک راہ
وہ اسوہء شبیر ہے ،نہیں اس سے کچھ سوا
آن رہ جائے ،جاں رہے نہ رہے
یہی درس حریت ہے یہی ہے درس کربلا
جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے بہتر ہے
کہ اپنی جان دے کر اعلائے کلمتہ الحق کی خاطر
سارا گھر راہ خدا میں قربان کر دیا جائے
حریت ضمیر سے جینا ہی کربلا کا درس ہے
تاریخ کا تسلسل
فرات تیری روانی اب تک جاری ہے
کربلا کوفہ بصرہ اور دمشق
اب تک آباد اور ہنستے بستے دکھائی دیتے ہیں
اہل درد ذرا تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں
اکسٹھ ہجری کا وہ سانحہ جب بھی یاد آتا ہے
سات محرم کا وہ دن تھا جب آل نبی پر بند ہوا تھا پانی
سوا نیزے پر سورج تھا اور پھول سارے کملانے لگے تھے
العطش العطش کی صدا خیام آل رسول سے آ رہی تھی
دریائے فرات پہ قابض شامی فوج کے شقی القلب سپاہی
Dr.Ghulam ShabbiR Rana
کاروان حسین کاروان حسین
اکسٹھ ہجری سے آج تک تاریخ
اس بات کی گواہی دے رہی ہے
کاروان حسین کو سدا صعوبتوں کا سفر درپیش رہتا ہے
حریت ضمیر سے جینے کی تمنا کرنے والوں پر
عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے
کربلا آج بھی موجود ہے
عدل عنقا ہے ،جبر غالب ہے
مظلومیت دادرسی کی طالب ہے
بارگاہ حسین
ارض و سما بارگاہ حسین کی ہے
شش جہت سجدہ گاہ حسین کی ہے
عاصیو مغفرت جو چاہتے ہو
مغفرت بے پناہ حسین کی ہے
رحمتوں کا باب
سر بہ سر رحمتوں کا باب حسین
ظلمتیں کافور کرنے میں
کامران اور کامیاب حسین
اذہان کی تطہیر اور تنویر کی خاطر
آفتاب اور ماہتاب حسین
ٓانصاف
مٹا دیا جہاں سے تفریط اور افراط کو
تشنہ لب کیسے جنگ کرتے ہیں
دکھلا دیا آئینہ نہر فرات کو
شیر خدا کے لال نے کر دیا کمال
حق و انصاف کی بقا کے لیے
سارا گھر راہ حق میں وار دیا
حیران کر دیا پھر شش جہات کو
لمحہء فکریہ
آج بھی انساں اپنے چار سو
دیکھتا ہے برق تپاں کے شعلے
آج بھی وقت کے شمر اور یزید
ہنستے بستے ہوئے گھر اجاڑ دیتے ہیں
حق و انصاف کی جو بات کرے
Dr.Ghulam ShabbiR Rana
عید قرباں عید قرباں
عید قرباں کا درس ہے ایثار
زیست کا لمحہ لمحہ کرو جو شمار
فرصت زیست اب غنیمت ہے
اس کو مت بھولنا کبھی زنہار
بکرے
قربانی کے بکرے یوں بن گئے عوام
تاجروں نے بڑھائے سب اشیا کے دام
احمقوں کی جنت میں وہ سب رہتے ہیں
جو چاہتے ہیں قیمتوں میں آئے گا استحکام
قحط الرجال
کوڑے کے ڈھیر پہ ہڈی دیکھ کے جید جاہل
لپک کے ٹوٹ پڑا وہ اس پہ گو تھا بے حد کاہل
پلک جھپکتے میں اس نے منہ میں لی ہڈی تھام
پا ہی لیا اس جاہل نے اپنے جہل کا یہ انعام
لاف
اک متفنی جاہل کا تھا یہ افسون
لاف زنی ہی تھا اس کامضمون
چور محل کی خرچی لے کر چیختا تھاوہ
اس نے پیچھے چھوڑ دیا ہے افلاطون
غیبت
گزرے وقتوں کی بیان کہانی کرتے تھے
آسو جیسے موذی یاد پھر نانی کرتے تھے
رواقیت کے داعی نے بے پر کی اڑائی
اس کے آگے افلاطون بھی پانی بھرتے تھے
مسخرا
ساٹھ برس کی عمر میں وہ شباب پہ اٹھلاتا تھا
سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا تھا
پریوں کے اکھاڑے میں وہ راجہ اندر آسو
صبح و مسا کلیوں کو مسل کر وحشی ہنہناتا تھا
Dr.Ghulam Shabbir Rana
ماہیے ماہیے
آجا تو جھنگ ماہیا
ہیر کے روضے پر
بن مست ملنگ ماہیا
سب خلقت دنگ ماہیا
کید و کی عمل داری
ہر شہر ہے جھنگ ماہیا
تصویر سجا دنیا
ہم پیا ر کے ماروں پر
تعزیز لگا دنیا

محروم رہا برسوں
اک پیار کے بندھن میں
یہ دل ہی جلا برسوں
خوش رنگ بہاروں میں
ہم ہار گئے سب کچھ
آنچل کے نظاروں میں
باغوں میں بہار آئی
ہر پریم کہانی کا
انجام ہے رسوائی
ہر سمت پکار آیا
جب شکل تیری دیکھی
اس دل کو قرار آیا
جگ رین بسیرا ہے
زرومال کا ناٹک سب
تیراہے نہ میرا ہے
سن دل کی ترنگ ماہیا
سب شیریں مقالوں سے
آکر مل جھنگ ماہیا
دل کی یہ امنگ ٹھہری
شیرافضل ، طاہر اور امجد کی
دلی تو جھنگ ٹھہری
عیدیں شب راتیں ہیں
پھر چاند سے ملنے کی
یہ ساری گھاتیں ہیں
پیار نبھانے کے
مر کر بھی زندہ ہیں
کردار افسانے کے
حالات زمانے کے
اک بار تو دیکھ ہی لو
لمحات دیوانے کے
ہر سمت صفائی ہو
دل زندہ رہے کیسے
جب چاند ہر جائی ہو
یہ دن ہے منگل کا
انصاف تو عنقا ہے
قانون ہے جنگل کا
گھبراؤ نہ تنگی سے
جب پیار پتنگ پیچے
پڑ جائیں جھنگی سے
ہر سمت اندھیرے ہیں
بے لوث کہاں ساتھی
سب فصلی بٹیرے ہیں
چتڑی کے دانے ہیں
کالے دھن والے
جھلے بھی سیانے ہیں
Dr.Ghulam Shabbir Rana
Famous Poets
View More Poets