Poetries by ایمان شہزاد
سوالیہ آج یاروں کے ساتھ ڈومینوز, کل سینٹارس کا پلان ہے
چلو ٹھیک ہے
والد صاحب نے ستر ہزار بھرنے ہیں یونیورسٹی میں
اس کا کیا
کر لیں عشق و عاشقی کی باتیں دو گھڑی بیٹھ کے
چلو ٹھیک ہے
وہ جو دو دنوں سے گھر والوں سے نہ ہوئ گفتگو
اس کا کیا
عمران، نواز کے نام پر کر لیتے ہیں ہاتھاپائ آپس میں
چلو ٹھیک ہے
اور جو معاشرے کو مجھ سے یا تم سےہیں نیک امیدیں
اس کا کیا
ایمان شہزاد
چلو ٹھیک ہے
والد صاحب نے ستر ہزار بھرنے ہیں یونیورسٹی میں
اس کا کیا
کر لیں عشق و عاشقی کی باتیں دو گھڑی بیٹھ کے
چلو ٹھیک ہے
وہ جو دو دنوں سے گھر والوں سے نہ ہوئ گفتگو
اس کا کیا
عمران، نواز کے نام پر کر لیتے ہیں ہاتھاپائ آپس میں
چلو ٹھیک ہے
اور جو معاشرے کو مجھ سے یا تم سےہیں نیک امیدیں
اس کا کیا
ایمان شہزاد
میں اور محبت آخری نمبر پہ کھڑی ہوں اس لمبی قطار میں
دن ڈھلنے کو آیا ہے وصلِ جانم کے انتظار میں
جب اس سے ملوں گی
پھر کچھ نہ کہوں گی
اس کے چہرے کے
نقوش و نگار کو
نگاہِ چاہ سے
یوں سراہوں گی کہ
لمحے بھر کو وہ بھی
محوِ تصور ہو جائے گا
اپنے سراپائے حسن کے دیدار میں
انمول ہے وہ دنیا میں ..یہ اسکو احساس دلاؤں گی
کر کے حاوی اپنا جنون اس پر
پھر آہستہ آہستہ اسے حقیقت میں لاؤں گی
پھر اسکے احساسات و جذبات کو روند کر
اس سے لاتعلقی کر کے آگے بڑھ جاؤں گی
کیوں کہ
یہ دنیا ہے میاں !....کوئ جگۂ وفا نہیں
ایمان شہزاد
دن ڈھلنے کو آیا ہے وصلِ جانم کے انتظار میں
جب اس سے ملوں گی
پھر کچھ نہ کہوں گی
اس کے چہرے کے
نقوش و نگار کو
نگاہِ چاہ سے
یوں سراہوں گی کہ
لمحے بھر کو وہ بھی
محوِ تصور ہو جائے گا
اپنے سراپائے حسن کے دیدار میں
انمول ہے وہ دنیا میں ..یہ اسکو احساس دلاؤں گی
کر کے حاوی اپنا جنون اس پر
پھر آہستہ آہستہ اسے حقیقت میں لاؤں گی
پھر اسکے احساسات و جذبات کو روند کر
اس سے لاتعلقی کر کے آگے بڑھ جاؤں گی
کیوں کہ
یہ دنیا ہے میاں !....کوئ جگۂ وفا نہیں
ایمان شہزاد
کیا ہوتا اگر جو قلم نہیں ہوتا شاعری بھی بالکل عورت کی طرح ہوتی ہے
نہ.....نرم و نازک نہیں ...بلکہ
اسے بھی عورت کی طرح
حوسی نظروں سے خوف آتا ہے
جب وہ اپنے شاعر کے سائبان سے نکل کر
بازارِ فروشِ سخن میں جا بیٹھتی ہے
تو ہر پڑھنے والے کی آہٹ سن کر
وہ ذرا سی سہم جاتی ہے ...اور سوچتی ہے
کہ کیا یہ میرے قابل بھی ہے؟
کہیں یہ مجھے پڑھ کر
اتنی ہی محبت سے دیکھے گا؟
جیسے لکھنے والے نے دیکھا تھا
کیا یہ میرے مصروں کی حکمت پر
بڑے دھیان سے غور و فکر کرے گا؟
یا اوپر اوپر سے پڑھ کر
کوئی بھی نازیبا فتوی لگا کر
میری عصمت کو داغدار کر دے گا؟
ہاں.....یہ پڑھنے والے کا حق ہے کہ
وہ جیسا بھی سمجھے
لیکن ....... شاعری بھی بچنا چاہتی ہے
بری نظروں سے.....سچی
ایمان شہزاد
نہ.....نرم و نازک نہیں ...بلکہ
اسے بھی عورت کی طرح
حوسی نظروں سے خوف آتا ہے
جب وہ اپنے شاعر کے سائبان سے نکل کر
بازارِ فروشِ سخن میں جا بیٹھتی ہے
تو ہر پڑھنے والے کی آہٹ سن کر
وہ ذرا سی سہم جاتی ہے ...اور سوچتی ہے
کہ کیا یہ میرے قابل بھی ہے؟
کہیں یہ مجھے پڑھ کر
اتنی ہی محبت سے دیکھے گا؟
جیسے لکھنے والے نے دیکھا تھا
کیا یہ میرے مصروں کی حکمت پر
بڑے دھیان سے غور و فکر کرے گا؟
یا اوپر اوپر سے پڑھ کر
کوئی بھی نازیبا فتوی لگا کر
میری عصمت کو داغدار کر دے گا؟
ہاں.....یہ پڑھنے والے کا حق ہے کہ
وہ جیسا بھی سمجھے
لیکن ....... شاعری بھی بچنا چاہتی ہے
بری نظروں سے.....سچی
ایمان شہزاد
مقامِ عاشق منزلِ عشق میں معشوق کی کوئ جگہ نہیں ہوتی
یہ سامانِ سفر ہے, ضرورت اس سے زیادہ نہیں ہوتی
چاہتیں جسموں کی تو بھاؤ تاؤ مانگے ہیں
خیال سے جب عشق ہو, تجارت نقصان ذدہ نہیں ہوتی
لوگ تو پا کر بھی اسے خاک کر دیتے ہیں
سرورِ عشق میں,ضرورت اسکی بھی جابجا نہیں ہوتی
رہنا بن کے معشوق کسی کا,کم تکلف سے نہیں ایمانؔ
مقامِ عاشق پا کر, جہاں میں پھر عام زلیخا نہیں ہوتی ایمان شہزاد
یہ سامانِ سفر ہے, ضرورت اس سے زیادہ نہیں ہوتی
چاہتیں جسموں کی تو بھاؤ تاؤ مانگے ہیں
خیال سے جب عشق ہو, تجارت نقصان ذدہ نہیں ہوتی
لوگ تو پا کر بھی اسے خاک کر دیتے ہیں
سرورِ عشق میں,ضرورت اسکی بھی جابجا نہیں ہوتی
رہنا بن کے معشوق کسی کا,کم تکلف سے نہیں ایمانؔ
مقامِ عاشق پا کر, جہاں میں پھر عام زلیخا نہیں ہوتی ایمان شہزاد
کیا ہوتا اگر جو قلم نہیں ہوتا سوچو تو کیا ہوتا اگر جو قلم نہیں ہو
عِلم کے سر پر کاغذ کا اونچا عَلَم نہیں ہوتا
محفوظ ادب ہوتا اور نہ تہذیب ہوتی بلکہ
آج جہالت کا بھرا کبھی زخم نہیں ہوتا
ملِکہ تلوار ہوتی شہ زادی بندوق ہوتی
درس و تدریس کا یہاں کوئ دھرم نہیں ہوتا
برا سب سے تو بی بی تمہارے ساتھ ہوتا ایمانؔ
تم سے بیان کبھی حسنِ صنم نہیں ہوتا ایمان شہزاد
عِلم کے سر پر کاغذ کا اونچا عَلَم نہیں ہوتا
محفوظ ادب ہوتا اور نہ تہذیب ہوتی بلکہ
آج جہالت کا بھرا کبھی زخم نہیں ہوتا
ملِکہ تلوار ہوتی شہ زادی بندوق ہوتی
درس و تدریس کا یہاں کوئ دھرم نہیں ہوتا
برا سب سے تو بی بی تمہارے ساتھ ہوتا ایمانؔ
تم سے بیان کبھی حسنِ صنم نہیں ہوتا ایمان شہزاد
اک عرصے بعد آپ سے ملاقات ہوگی اک عرصے بعد آپ سے ملاقات ہوگی
یعنی ہمارے الفاظ کی آج برسات ہوگی
عجب فتنہ ہے شبِ وصل کا بھی
کہ نگاہوں سے آج قتل کی واردات ہوگی
سیاہ رات کے چاند کے سامنے
چاندنی کو آج کسی کے حسن سے مات ہوگی
کچھ آپ کہیں گے, کچھ ہم سنائیں گے
نہ جانے کیسی, شکووں بھری یہ رات ہوگی
رنجشیں تو ضرور ہوں گی ..مگر
ہماری منظورِ نظر فقط آپ ہی کی ذات ہوگی
میں بھول گئی ہوں گی آپ کے ستم !
اتنی کمزور تو نہیں میری یاداشت ہوگی
کوئ بات گر بری لگے تو معاف کردینا میاں !
اب آپ ہی کے انداز میں آپ سے بات ہوگی ایمان شہزاد
یعنی ہمارے الفاظ کی آج برسات ہوگی
عجب فتنہ ہے شبِ وصل کا بھی
کہ نگاہوں سے آج قتل کی واردات ہوگی
سیاہ رات کے چاند کے سامنے
چاندنی کو آج کسی کے حسن سے مات ہوگی
کچھ آپ کہیں گے, کچھ ہم سنائیں گے
نہ جانے کیسی, شکووں بھری یہ رات ہوگی
رنجشیں تو ضرور ہوں گی ..مگر
ہماری منظورِ نظر فقط آپ ہی کی ذات ہوگی
میں بھول گئی ہوں گی آپ کے ستم !
اتنی کمزور تو نہیں میری یاداشت ہوگی
کوئ بات گر بری لگے تو معاف کردینا میاں !
اب آپ ہی کے انداز میں آپ سے بات ہوگی ایمان شہزاد
تصور کی دنیا ویسے جناب تصور کی دنیا بھی نا
بہت ہی پیاری ہے
تصور میں جو بھی دل چاہے
وہ خیال سوچ لیتی ہوں
انسانوں کی مطلب پرست
گفتگو سے بچ کر
کچھ دیر کو مجھے
پھولوں, پرندوں, تتلیوں
سے باتیں کرنا
رنگوں کے رقص میں رنگ جانا
دل کی بات دل سے کہنا
حسن پسندی کا اظہار کرنا
کسی کی ایک ادا کو سوچنا
بہت پسند ہے
کہ یہ دن بھر کی تھکان کو
راحت میں بدل دیتا ہے
بیرونی دنیا کے مسئلوں سے
چند منٹوں کی رہائی ہے ایمان شہزاد
بہت ہی پیاری ہے
تصور میں جو بھی دل چاہے
وہ خیال سوچ لیتی ہوں
انسانوں کی مطلب پرست
گفتگو سے بچ کر
کچھ دیر کو مجھے
پھولوں, پرندوں, تتلیوں
سے باتیں کرنا
رنگوں کے رقص میں رنگ جانا
دل کی بات دل سے کہنا
حسن پسندی کا اظہار کرنا
کسی کی ایک ادا کو سوچنا
بہت پسند ہے
کہ یہ دن بھر کی تھکان کو
راحت میں بدل دیتا ہے
بیرونی دنیا کے مسئلوں سے
چند منٹوں کی رہائی ہے ایمان شہزاد
اے جانِ ایمان اے متاعِ دل ! افزائے جاں
نازِ جاناں ! جانِ ایماںؔ
یوں کیوں مجھے ستاتے ہو تم؟
پھر بعد ظلمت کے, حرفِ دعا بن جاتے ہو تم
تمہاری یہ نشیلی آنکھیں
کرنِ آفتاب سے جب ٹکراتی ہیں
میری غزلیں مکمل ہو جاتی ہیں
سنتی ہیں جب کلیاں, ہولے سے شرماتی ہیں
اوّل تمہارا قاتل لہجہ دوسرا یہ اندازِ گفتگو
عمر بھر رہوں سامعہ تمہاری اور نہیں میری کوئی آرزو
میں سندیس ہوا کو سنا کر
بھیجوں جب بھی تمہاری نذر...ایسا کرنا
اس ہوا سے خود کو ٹکرا کر
ذرا سا مسکرا دینا, ذرا سا گنگنا دینا
اے دلرباب ! یہ دم ہوئے پانی مجھکو کافی نہیں ہے
آبِ حیات ہے تو پلا ورنہ دوسرا کوئی پانی پانی نہیں ہے ایمان شہزاد
نازِ جاناں ! جانِ ایماںؔ
یوں کیوں مجھے ستاتے ہو تم؟
پھر بعد ظلمت کے, حرفِ دعا بن جاتے ہو تم
تمہاری یہ نشیلی آنکھیں
کرنِ آفتاب سے جب ٹکراتی ہیں
میری غزلیں مکمل ہو جاتی ہیں
سنتی ہیں جب کلیاں, ہولے سے شرماتی ہیں
اوّل تمہارا قاتل لہجہ دوسرا یہ اندازِ گفتگو
عمر بھر رہوں سامعہ تمہاری اور نہیں میری کوئی آرزو
میں سندیس ہوا کو سنا کر
بھیجوں جب بھی تمہاری نذر...ایسا کرنا
اس ہوا سے خود کو ٹکرا کر
ذرا سا مسکرا دینا, ذرا سا گنگنا دینا
اے دلرباب ! یہ دم ہوئے پانی مجھکو کافی نہیں ہے
آبِ حیات ہے تو پلا ورنہ دوسرا کوئی پانی پانی نہیں ہے ایمان شہزاد
اس قدر کیسے پیچیدہ یہ رشتے ناطے ہیں اس قدر کیسے پیچیدہ یہ رشتے ناطے ہیں
نہ سلجھتے ہیں نہ مجھے سمجھ میں آتےہیں
وقت سکھا دیتا ہے دنیا داری ایک دن , پھر
کہیں ماتم ہنساتے ہیں کہیں قہقہے رلاتے ہیں
کہاں ملتے ہیں جواب اپنے مطلب کے
چلتے چلتے یوں ہی بے تکے سوال ستاتے ہیں
تم احباب کی بات کرتی ہو ایمان؟
رنگوں سے مل کر تو رنگ بھی بدل جاتے ہیں ایمان شہزاد
نہ سلجھتے ہیں نہ مجھے سمجھ میں آتےہیں
وقت سکھا دیتا ہے دنیا داری ایک دن , پھر
کہیں ماتم ہنساتے ہیں کہیں قہقہے رلاتے ہیں
کہاں ملتے ہیں جواب اپنے مطلب کے
چلتے چلتے یوں ہی بے تکے سوال ستاتے ہیں
تم احباب کی بات کرتی ہو ایمان؟
رنگوں سے مل کر تو رنگ بھی بدل جاتے ہیں ایمان شہزاد
چاند یوں کچھ دیر کو آتے ہو چلے جاتے ہو چاند یوں کچھ دیر کو آتے ہو چلے جاتے ہو
میری نظروں سے چھپ کر بادلوں میں شرماتے ہو
مجھ کو گرویدہ اپنے حسن کا بنا کر
پھر پیار سے دوری کا حکم فرماتے ہو
چاند کیسے آفتاب کی جگہ لے کر تم
کس ادا سے جلوۂ نور اپنے سر منواتے ہو
ہر دن مجھ سے محوِ گو ہو کے
تم کس طرح مناظرِ خواب دکھاتے ہو
چاند ہم روز تمہاری قربت کو ترس جاتے ہیں
اور تم ہو کہ ستاروں میں محفل سجاتے ہو
ایمان شہزاد
میری نظروں سے چھپ کر بادلوں میں شرماتے ہو
مجھ کو گرویدہ اپنے حسن کا بنا کر
پھر پیار سے دوری کا حکم فرماتے ہو
چاند کیسے آفتاب کی جگہ لے کر تم
کس ادا سے جلوۂ نور اپنے سر منواتے ہو
ہر دن مجھ سے محوِ گو ہو کے
تم کس طرح مناظرِ خواب دکھاتے ہو
چاند ہم روز تمہاری قربت کو ترس جاتے ہیں
اور تم ہو کہ ستاروں میں محفل سجاتے ہو
ایمان شہزاد
ایک قصہ بیٹھ کر پاس میرے, اک چڑیا نے آج یہ سوال کیا
ہم تو ٹہہرے پرند, انسان نے انسان کا کیا حال کیا؟
بے زبان مَیں ,مگر "چوں چوں " کرکے ذاکرِ خدا ہوئی, اور تو
اہلِ زبان بھی ہوا اور "میں میں" سے خود کو نکلنا محال کیا
بنا مشین کے اڑوں میں , اور تکبر تمہارا آسمان چھوئے
عقل کی بنیاد پہ اشرف ہوا, مگر عقل کا نہ استعمال کیا
جو دنیا کی پٹی تو باندھے ہے آنکھوں پر....کیا بھول گیا؟
ہر شاہ کا کفن میں لپیٹ کہ عروج خدا نے زوال کیا
یہ حال تیرا ہوا تب سے تو بھولا ہے جب سے خودی کو
ورنہ خود بتا کَیا نہ تیرا مرتبہ خدا نے بے مثال کیا؟
Emaan shehzad
ہم تو ٹہہرے پرند, انسان نے انسان کا کیا حال کیا؟
بے زبان مَیں ,مگر "چوں چوں " کرکے ذاکرِ خدا ہوئی, اور تو
اہلِ زبان بھی ہوا اور "میں میں" سے خود کو نکلنا محال کیا
بنا مشین کے اڑوں میں , اور تکبر تمہارا آسمان چھوئے
عقل کی بنیاد پہ اشرف ہوا, مگر عقل کا نہ استعمال کیا
جو دنیا کی پٹی تو باندھے ہے آنکھوں پر....کیا بھول گیا؟
ہر شاہ کا کفن میں لپیٹ کہ عروج خدا نے زوال کیا
یہ حال تیرا ہوا تب سے تو بھولا ہے جب سے خودی کو
ورنہ خود بتا کَیا نہ تیرا مرتبہ خدا نے بے مثال کیا؟
Emaan shehzad