✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
Gulzaib Anjum
Search
Add Poetry
Poetries by Gulzaib Anjum
افضل کے نام
بچھڑا ہے جب سے تو,اُداس تب سے جہان لگتا ہے
تو نہیں تو , ویراں سارا گلستان لگتا ہے
عجیب سی کشمکش ہے اب کہ ہجر میں تیرے
تیر جگر میں تو لہو آنکھوں سے رواں لگتا ہے
مانا کے رہنا نہیں یہاں کسی کو سدا کے لیے
پھر ڈولتا ہوا کیوں یہ ایمان لگتا ہے
لوٹ آؤ کہ میں بتا نہیں پاتا کیفیت اس غم کی
کہنے میں کم جو سہنے میں طوفان لگتا ہے
جانے کیا بات تھی ایسی تجھ میں جسے اب
یاد کر کے ماتم کنعاں ہر پیر و جواں لگتا ہے
سینہ کوبی ہو گیا ہے مشغلہ اب لیل و نہار کا
سینہ میرا تو امام باڑہ اب تیرا مکاں لگتا ہے
دے کر واسطہ دوستی کا تجھے کہتا ہوں دوست
لوٹ آؤ کہ بن تیرے بہت اُداس اُداس عثمان لگتا ہے
گلزیب انجم
Copy
کہا تھا کہ خط لکھنا
نگاہوں میں تیر سانپ جو آستین میں رکھتے ہیں
صورت واللہ وہ کتنی حسین رکھتے ہیں
گفتار دلکش میں نہیں ثانی کوئی اُن کا
زہر زبان میں کتنا میرے ہم نشین رکھتے ہیں
ہوتا نہ کیونکر گھائل آخر دل ہی تو ہے
مستی آنکھوں میں مسکان لبوں پہ دلنشین رکھتے ہیں
ہم ہار گے سب کچھ وارفتگیِ محبت میں
شعلہ عجب سا بدن میں نازنین رکھتے ہیں
ہم سمبلتے کیسے ہم کھاتے نہ دھوکہ کب تلک
وہ فتنہ حُسن برپا ازل سے سر زمین رکھتے ہیں
گلزیب انجم
Copy
کہا تھا کہ خط لکھنا
ہم نے تو یہ کہا تھا کہ خط لکھنا
کب کہا تھا کہ نظم لکھنا یا افسانہ لکھنا
برسوں سے کہہ رہے ہو جو بات اب نہ وہ کہنا
لکھنا تو اب کی بار نیا کوئی بہانا لکھنا
سرد راتوں میں بہل جائے جس سے دل
لکھنا تو ایسا کوئی ترانہ لکھنا
کیوں لکھ نہ پائے محبت نہیں یا فرصت نہ تھی
کیسے بدلے ہو مزاج اپنا وہ کارنامہ لکھنا
قسم سے تڑپ رہے ہیں تیرے انتظار میں
اب آ جانا نہ آنے کا نہ بہانا لکھنا
کس نے چاہ لیا ہے تجھے مجھ سے بڑھ کر
اُس کا نام و پتہ لکھنا ٹھکانہ لکھنا
ہم چاہا کر بھی نہ بھول پائے تیرا انداز تخاطب
وہ تیرا قاضی جی میاں جی اور کبھی میانہ لکھنا
اگرچہ ممکن نہیں پھر بھی کہتے ہیں تجھے زیب
چھوڑ دو اب تم بھی جانم لکھنا وہ جانِ جاناں لکھنا
گلزیب انجم
Copy
ہے یہ میرا دعویٰ
ہے یہ میرا دعویٰ
فرما لو اک بار ارادہ سیری تشریف لانے ک
دعوی ہےمیرا سوچو گے نہ پھرکہیں جانے ک
میری دھٹرکنوں کی طرح میرے اہل خانہ کو ہے خبر
میرے گھر کے در و دیوار ہیں بس تیرےمنتظر
چلےآؤ کہ تیرے آنے سے ہو جائے گا بہاروں سا منظر
کہ اب ہو پا نہیں رہا مجھ سے صبر
ترس گئی ہیں پہلے سے آنکھیں سوچنا نہ اورترسانے ک
فرما لو اگر اک بار ارادہ سیری تشریف لانے کا
پورا نہ ہو پائے ایسا وعدہ نہیں کرت
ٹوٹ جائے راہ میں ایسا ارادہ نہیں کرت
سفر خوابوں کا بھی میں تنہا نہیں کرت
یقین اگر نہ آنے آزما لینا مزا آئے گا آزمانے ک
فرما لو اگر اک بار ارادہ سیری تشریف لانے کا
میرے آنگن سے پھر جڑ جائے گا سلسلہ بہار کا
صلہ تو کچھ پائے گا یہ دل تیرے انتظار کا
ناطہ پھر سے جڑ جائے گا گلوں سے گلزار ک
سوکھی کلیاں کھل جائیں گئی گرانداز ہو بلبل سا گانے کا
فرما لو اگر اک بار ارادہ سیری تشریف لانے کا
سفر سیری کا ایسا بھی دشوار نہیں
میرے گھر کے رستے میں حائل کوئی دیوار نہیں
پانی مانگو تو پانی ملے گا لہو بھی مانگو تو انکار نہیں
برسوں سے منتظر ہوں کس نے کہا تیرا انتظار نہیں
بچپن سی شرارتیں کرنا سوچنا بھی نہ شرمانے ک
فرما لو اگر اک بار ارادہ سیری تشریف لانے کا
سادگی تجھے زیبا ہے کون کہتا ہے سنورنا تیرا زیب نہیں
سچ کی دولت اچھی ہے پا لینا حق کو کچھ فریب نہیں
گلے کی طرح میسر ہار کو کہیں اورنشیب نہیں
وہی سادگی وہی چاہت کیسے مانوں کے یہ میرا زیب نہیں
طالب دید کے چہرے پہ رونق آئے گی کرو تکلف گر مسکرانے کا
فرما لو اگر اک بار ارادہ سیری تشریف لانے کا
دعوی ہے میرا سوچو گے نہ پھرکہیں جانے کا
فرما لو اگر اک بار ارادہ سیری تشریف لانے کا
گلزیب انجم
Copy
سحر و افطار
یاد تمہاری آتی ہے سحَرو اَفطار میں
ڈھونڈتی ہیں آنکھیں تجھے یادوں کے انبار میں
لوٹ آتی ہیں جب خالی نگاہیں
اک ہوک سی اٹھتی ہے دلِ بقرار میں
یُوں تو غمِ دل مٹانے کے لیے کی ہیں چشم تَر
تصویر تری پھر بھی بنتی رہی آنسوؤں کی قطار میں
رمضان آیا اور تم نہیں آئے ،چلو اچھا ہی کیا
گزر جاہیں گے دن کچھ اور تیرے انتظار میں
افطاری کے بعد بھی بُجھ نہ سکی تشنگیِ دید
شدت باقی رہی یادوں کی دلِ بے قرار میں
عید سے پہلے اگر تم ہلال عید بن کر آ جاؤ
لاج میری بھی رہ جائے گی بھرے سنسار میں
تم لوٹ آئے تو جانا میں نے میرے زیب
رائیگاں کب جاتی ہے دعا جو مانگی ہو افطار میں
گل زیب انجم
Copy
سچے کی
دنیا کب بات پسند کرتی ہے سچے کی
ناپائیداری مقدر بنتی ہے سچے کی
نرالی ہیں عدالتیں یہاں نرالے ہیں کام ان کے
شنوائی کب ہوتی ہے سچے کی
ملاں قاضی حاجی نمازی چپ رہ جاتے ہیں
بات جب بھی ہوتی ہے سچے کی
چور اچکے ٹھگ بدمعاش متعبر ہوئے
چمڑی اترتی دیکھی ہے سچے کی
عجب سی ہے ریت تیری اے دنیا
سب کی مانی مگر ایک نہ مانی سچے کی
گل زیب انجم
Copy
چنگیاں مندیاں دی جدوں سمجھ نئیں سی
چنگیاں مندیاں دی جدوں سمجھ نئیں سی
ویلے او وی بڑے چنگے سن
ہن ہر ہر گل دی سمجھ آن لغی
ویلے اے وی بڑے چنگے ہن
چاواں دناں دی یاری وچ سارا کجھ روہڑی بیٹھے آں
اک بندے دی خاطر ساری دُنیا چھوڑی بیٹھے آں
ساواں نال جدوں ساہ کینے ساں
ویلے او وی بڑے چنگے سن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلاں او ساریاں دلے نال لائی بیٹھے آں
ہر ہر گل کی مرض بنائی بیٹھے آں
انہاں مرضاں کولوں جدوں ڈرنے ساں
ویلے او وی بڑے چنگے سن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
او وی دن سن جدوں چھوٹیاں موٹھیاں قسماں چنگیاں لغنیاں سن
چن تکی تے مونہہ تکنے نیاں رسماں چنگیاں لغنیاں سن
اک دوجے نی خاطر جینے مرنے ساں
ویلے او وی بڑے چنگے سن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھر نیاں توں چوری چوری چیزاں اک دوہے کی دینے ساں
سارے ٹھاکنے سن فیر وی گٹھیاں رہنےساں
چنگیاں گلاں تے وی عمل گھٹ گھٹ کرنے ساں
ویلے او وی بڑے چنگے سن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنگیاں مندیاں دی جدوں سمجھ نئیں سی
ویے او وی بڑے چنگے سن
ہن ہر ہر گل دی سمجھ آن لغی
ویلے اے وی بڑے چنگے ہن
گل زیب انجم
Copy
اک دوجے سنگ سنگ رہنا چنگا لغنا سی
اک دوجے سنگ سنگ رہنا چنگا لغنا سی
اک دوجے دی خاطر دکھ سکھ سہنا چنگا لغنا سی
تُپ شُپ نی پروا سی کس کی
کڑکنے دوپہراں باھر رہنا چنگا لغنا سی
اللہ جانے کہہ گلاں اس ویلے وچ
کہ اُس ویلے ناں ہر ہر پل چنگا لغنا سی
ایویں تے باہوں جغاں سن بہھن لئی
پر سکولے نیاں راں وچ بہنا چنگا لغنا سی
اج پتا نئیں کیڑی گل ے مونہہ پیھری تے لنگی گئے
جنھاں کی کھلی کھلی تے تکنا چنگا لغنا سی
خورے کیڑے ظالمے کھوی کیندا او پھہل
جس کی تکنا ہر کسے کی چنگا لغنا سی
گل زیب انجم
Copy
مس کال
بے خبر کب رہتے ہیں وہ میرے حال سے
یہ الگ بات کہ بات سنتے ہیں مجال سے
پوچھ لیا جو ان سے بکھری زلفوں کا سبب
شرما سے گے میرے اس سوال سے
بات جب بھی چلی تجدید عہد وفا کی
مسکرا کے ہونٹ کاٹ لیا کمال سے
کہا جب ان سے شاید یہ آخری ملاقات ہو
دیر تلک پونچھتے رہے آنکھیں رومال سے
ہو جنون محبت اور ہوش زر بھی
بات کچھ ججتی نہیں اس مثال سے
جب دوری نے ستایا اور جی بھی گبھرایا
ڈال دیا بلنس کہ بات بنتی نہیں مس کال سے
گل زیب انجم
Copy
حکومتاں تے چنگیاں مندیاں آندیاں رہندیاں
حکومتاں تے چنگیاں مندیاں آندیاں رہندیاں
کریئے کی کر کے انہاں ہرتالاں نوں
اش دیئے دشمن دے اعلیٰ خیالاں نوں
ڈوھلیاں بیراں دا ہجایں کجھ نئیں گیا
جے کر ویلے نال سمجھ لیئے غیراں دیاں چالاں نوں
پوچھن تے وی جے کوئی سیدھے مونہہ جواب نہ دیوے
کیتھے رکھیے بن بن کے صحافت دے سوالاں نوں
اسی او ہو نئیں سکدے جنھاں دی ایس دھرتی نوں لوڑ
بندھ کر دیوؤ کتاباں ساریاں سنبھال رکھو انہاں حوالاں نوں
اسی کدے ایوبی غوری تے سلطان ٹیپو ہو نئیں سکدے
اسی کی لیناں پڑھ کے انہاں دیاں مثالاں نوں
ایرپورٹ جیاں تھاواں جدوں محفوظ نئیں ہن زیبا
توں لوکاندا پھیردا ایں ننھایاں منایاں بالاں نوں
گل زیب انجم
Copy
کاش
کبھی اس کو
بھی ایسا لگے
کہ ! میں اس
کی گلیوں میں
پھر سے پلٹ کر
آگیا ہوں
وہ
مجھے دیکھنے کے
لیے سرپٹ اٹھ کر
بھاگے لیکن !ایک ہی
ٹھوکر سے اس کی
آنکھ کھل جاے
وہ
اپنی اس بےخودی پر
خود ہی شرما جاے
میری طرح وہ
بھی مجھے دیکھ
نہ پاے
بستر کی بے ترتیب
شکنوں سے خود ہی سوال
کرے،پھر کچھ بھی جواب
نہ پاے
آنکھوں سے نیند کوسوں
دور
بھاگ جاے
تب
وہ بھی میری طرح
اپنی اس بےچینی کو
سو سو نام دے
مطلب جدائی کا
اس سانحے سے
خود ہی
سمجھ جاے
گلزیب انجم
گلزیب انجم
Copy
کوئی عنوان دو
مجھے کہنے کو کوئی عنوان دو
بولتی ہی جائے ایسی زبان دو
میں شاعر ہوں عاشق ہوں یا سودائی
لکھنے کو کہنے کوکچھ تونام ونشان دو
سرمیرے سایہ رہے خالقِ کائنات کا کافی ہے
میں نے کب کہا مجھے گھر دو مکان دو
برسوں سے میں عاجز ہوں ناکام حسرتوں کا
چھین کر سب کچھ نئی خواہشیں نئے ارمان دو
دل خالی پڑا ہے مدتوں سے زیب کا
سدا رہے جو اِس میں ایسا کوئی مہمان دو
گل زیب انجم
Copy
گزر ہوا جو میرا مکین خاموشاں کے شہر میں
گزر ہوا جو میرا مکین خاموشاں کے شہر میں
آواز ایک سنائی دی ڈوبی ہوئی سحر میں
ہماری طرح تم بھی منتظر ٹھرو گے
آو گے کبھی جو اس شہر میں
گل زیب انجم
Copy
کاش
کاش
وہ وقت پھر سے آ جائے
میں مس کال کروں
اور کال مل جائے
پھر
ایسا ہو جائے
وہ فرفتہ مجھ پر ہو جائیں
اور میری قسمت بدل جا ری دنیا
کیونکہ
دن رات میں نے
ان کو تلاش کیا ہے وہ مل جائیں
اور میل جائے
گلزیب انجم
Copy
تبصرہ جب بھی ہوا
تبصرہ جب بھی ہوا میرے حال پر
شرما خود ہی گئے اس سوال پر
باتوں باتوں میں بدل دیا موضوع گفتگو
حیران رہ گیا بزم کا ہر شخص اس کمال پر
مسل مسل کر ہاتھ مسل دیا سب کچھ
لکھا تھا جو بھی تنہائی میں اس رومال پر
دھڑکن سینے کی تو چھپا لی رکھ کر ہاتھ
پہرا مگر لگا نہ سکے گلے کے اس شال پر
ورفتگی محبت جب بھی دیکھی کسی کی
دے کر ہماری مثال شرما گے خود ہی اس مثال پر
گل زیب انجم
Copy
قطعات زیب
پیرہن پر کیوں جمائی ہیں نظریں
دیکھو اگر دل تو وہ بھی شکستہ ہے
اک چھوٹی سی جونپڑی ہے یاّدوں کی
مگر بڑا ہی طویل اُس کا رَستہ ہے
یہ دُنیا اور تیری نہ بچھڑنے کی ضد
خُود سُوچو کیا یہ بھی ہو سکتا ہے
زخم نادیدہ سے سینے میں سمائے ہوئے ہیں
جب سے ہمارے محلے میں وہ آئے ہوئے ہیں
شبستانوں سے بہتر جانا اب تو ویرانوں کو
ڈرون جب سے امریکہ نے بنائے ہوئے ہیں
عجب سکونت کی اختیار بنجاروں نے کہ پٹواری حیران ہیں
قبضہ ہے کراچی پر اور مہاجر کھلائے ہوئے ہیں
روٹھو تم بار بار مگر کدورت نہیں چاہیے
ہم حاضر ہیں ہزار بار منانے کے لیے
لے آؤ کئی سے مٹی کا دیاّ اور رسی کی بھات
کہ لہو جگر کافی ہے اب جلانے کے لیے
ہر رمضان میں نام تیرے کچھ لکھ نہیں پاؤں گا
گیارہ مہینے کیا گزرتی وہ سب لکھ نہیں پاؤں گا
سچ جانو اب عمر کے اُس حصے میں ہوں
تُو جانو میں تجھے جان جگر کہہ نہیں پاؤں گا
اب ماند پڑا ہے میرا شوق خدمت،تم خود ہی
سحری کو اُٹھ جانا میں اُٹھا نہیں پاؤں گا
Gulzaib Anjum
Copy
دعا تجھے
جانے لگے ہو جو تم تو یہ دل کہہ رہا ہے
باندھ کر دے دوں ساری دنیا کی دعا تجھے
جانے کے بعد بھی بے مروتی کا طنعہ نہ ملے
انگ انگ میں بھر کر سونپ رہا ہوں وفا تجھے
اُڑی میرے چہرے کی رنگت شاید چاہت کا اثر ہے
تُو خوش رہے خدا کرے لگے نہ گرم ہوا تجھے
نہ جانے کتنی دیر اور برستی رہتی یہ آنکھیں
ڈر کر موند لی کہ کر نہ ڈالیں رسوا تجھے
خفا ہے اس لیے کہ نہیں کہا خدا حافظ میں نے
یہ کلمات تب کہتا جو کرتا دل سے وداع تجھے
یہ رسمی سے فاصلے ہیں کر لیا کرو قبول
آنچل کو پربت سمجھ لیا آخر کیا ہوا تجھے
ابھی سے اکیلے جینے کے گُر سیکھ لو زیب
کیسے جیو گے اگر کر دیا کسی نے جدا تجھے
گلزیب انجم
Copy
آخری لمحات
جگر شکستہ ہے تو دیدے پُرنم ہیں میرے
کوئی پُرسان حال نہیں مگر ایسے حالات میں
رپٹ تو تب درج ہوتی زخم جو کچھ دکھلا پاتے ہم
دل میں پیوست ہو گے تیر چُھپے تھے جو نگاہ التفات میں
وہ حقیقت سے گریزاں رہا کچھ مبالغہ آرائی مجھے پسند نہ تھی
فرق دو ساحلوں سا رہا اُس کے اور میرے خیالات میں
رفتہ رفتہ کسکتا رہا آخر کسک گیا میرے ہاتھوں اُس کا ہاتھ
پچھتایا وہ بہت رہ گیا میرے ہاتھ کا لمس جو اُس کے ہاتھ میں
یہ آشفتہ سری نہیں تو کیا ہے کہ سر شام در کھلے چھوڑ دئیے
روٹھ گیا تھا جو دن میں شاید لوٹ آئے کسی پہر رات میں
تعجب نہیں روٹھنے پر اُس کے چلے جانے پر پیشماں نہیں میں
تھی خبر کے سایہ بھی چھوڑ جائے گا ایسے حالات میں
ہم تُجھ سے اُن مراسم کی امید نہیں رکھتے جو قصّہ پَارنیہ ہوئے
بس زندگی کی شام تمام ہوئی آجانا تدفین کے آخری لمحات میں
گلزیب انجم
Copy
ہنجو ڈیگن
آکھاں وچوں ہنجو ڈیگن جدوں وی کدے میں ہساں
پریت تیری دیاں گلاں کیویں لوکاں نوں میں دساں
لوکاں دا کی اے لوک تے ہوندے ہن چسکورے
مزے لوون لوک جدوں وی درد اپنے میں دساں
پریت نبھاون دیاں قسماں خورے کھا بیٹھا ساں
اپنی گلاں بیڑیاں بنن جدوں وی میں نساں
اے پہولا دل کہندا اے مڑ آوے او بچپنا
جدے ہتھ سوہنا کھڈونا ویکھاں پہج پہج میں کھساں
اے شارے شپے کدے تے اپے سمجھ لیا کر
رمزں عشق دیاں ہر ویلے کیویں تینوں میں دساں
بن کے ملاں الٹی مت جے دے بیٹھا ساں
جے آکھاں ملاقات دا آپے ہی میں پھساں
گلاں حیاتی وچ چنگیاں مندیاں ہوندیاں رہیندیاں
کنِاں توں میں راضی ہوواں کِناں توں میں روساں
چھڈ کھیڑا دنیا دا ڈھیرے لا لے وچ مسطاں
چھلیا کملیا گلاں اور کیڑیاں تینوں میں دساں
نہ میں سرپینچ پنجاتاں نہ میں کھیڈے کھاڑے
کی گلاں یاد کری روہسن لوکی جدوں میں مرساں
نہ سخی فیاض نہ زہد عابد نہ میں تہجد گزار
ہنیری قبر وچ اپنیاں کیتاں توں میں ڈرساں
زیبّیا اے سنگتاں چار دیاڑے مان انہاں دا کی کرناں
بن کے بستر تقوے والا محبوب دیاں راہوں تے میں ٹرساں
Gulzaib Anjum
Copy
زیبا تیرا
مفاد پرستوں سے ہونا یوُں وابستہ تیرا
بدل نہ ڈالے ایمان تیرا توڑ نہ ڈالے وعدہ تیرا
آنکھوں کے زینے سے اکثر ہوتا تھا تیرا آنا جانا
باندھ دیئےکس نے پنکھ تیرے کاٹ دیا کس نے رستہ تیرا
تجھ سے ملے تجھ کو دیکھے اک عرصہ ہوا ہے جان جگر
پھر بھی لوگ پوچھتے ہیں مجھ سے نام تیرا پتہ تیرا
شاید تیری آنا کے رخت کھل جاہیں اور تو لوٹ آئے
اسی امید پر دیکھتا ہوں شام و سحر رستہ تیرا
کر دیئے منقطع کیوں سلسلے چھٹیوں کے مجھ سے
اب فون پر رہتا ہے ہر وقت کس سے رابطہ تیرا
یادوں کے لیے کافی ہے جو دیا تھا توُ نے ناز سے
دیکھنا کیسے سمنبھال رکھا ہے پیپل کا پتہ تیرا
دل میں رہنے والے جانے سے پہلے اتنا ضرور سوچنا
کرے گا کیا تیرے بعد گل تیرا،زیب تیرا، یہ زیبا تیرا
Gulzaib Anjum
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets