Poetries by johar mumtaz
Meri Jan Ko Qabzy My, Dil Ko Nadhal Rekhti O Meri Jan Ko Qabzy My, Dil Ko Nadhal Rekhti O
Sadgi My B Meri Jaan Tum Husan Kamal Rakhti O
Apny Dil Ka Haal Chor Ker Manti Ho Meri Batain
Shukriya Janab, Tum Mera Kitna Khiyal Rakhti O
Tareef Karun To Kesy Karun, Tujy Banany Waly Ki
Tum To Her Aada Hi Jaan E Aada, Be Misaal Rakhti O
Chupa Rakha Hy Wajood Ko Kisi Mukhlis K Liye
Tabhi Apny Husn E Sarapa Py Parda Sa Daal Rakhti O
Gardish E Doaran To Mjy Reza Reza Ker Deti Hy
Tum Hi To Apny Wajood My Mujy Sanbhal Rakhti O۔۔
Fida To Ho Hi Jana Tha Dil E Tamana JOHAR Ka
Ankhon My Teer E Naaz, Zulfo K Jaal Rakhti O
johar mumtaz
Sadgi My B Meri Jaan Tum Husan Kamal Rakhti O
Apny Dil Ka Haal Chor Ker Manti Ho Meri Batain
Shukriya Janab, Tum Mera Kitna Khiyal Rakhti O
Tareef Karun To Kesy Karun, Tujy Banany Waly Ki
Tum To Her Aada Hi Jaan E Aada, Be Misaal Rakhti O
Chupa Rakha Hy Wajood Ko Kisi Mukhlis K Liye
Tabhi Apny Husn E Sarapa Py Parda Sa Daal Rakhti O
Gardish E Doaran To Mjy Reza Reza Ker Deti Hy
Tum Hi To Apny Wajood My Mujy Sanbhal Rakhti O۔۔
Fida To Ho Hi Jana Tha Dil E Tamana JOHAR Ka
Ankhon My Teer E Naaz, Zulfo K Jaal Rakhti O
johar mumtaz
Wo Muj Ko Ab Kehti Hy Wo Muj Ko Ab Kehti Hy
Q Us Ko Meny Dekha Hy
Q Mehfil My Bulaya Hy
Q Gunah Milny Ka
Kiya Meny
Q Ankho Sy Saqi K
Ik Jaam Zehr Ka
Piya Meny
Teri Pur Kaif Nigaho My
My To Kho Gya Saqi
Is Khata K Badly Wo
Mjy Gumnam Rakhny Ko
Wo Ab Deedar Nahi Dety
Falak K Chaand Tu To
Hum Mizaaj Hy Us Ka
Sifarish Kr Dy Meri Yaar
K Mery Ho K Wo Ik Bar
Mjy Q Maar Nahi Dety
johar mumtaz
Q Us Ko Meny Dekha Hy
Q Mehfil My Bulaya Hy
Q Gunah Milny Ka
Kiya Meny
Q Ankho Sy Saqi K
Ik Jaam Zehr Ka
Piya Meny
Teri Pur Kaif Nigaho My
My To Kho Gya Saqi
Is Khata K Badly Wo
Mjy Gumnam Rakhny Ko
Wo Ab Deedar Nahi Dety
Falak K Chaand Tu To
Hum Mizaaj Hy Us Ka
Sifarish Kr Dy Meri Yaar
K Mery Ho K Wo Ik Bar
Mjy Q Maar Nahi Dety
johar mumtaz
Tery Jism Py Phela Hua Ye Neelgun Perhan Tery Jism Py Phela Hua Ye Neelgun Perhan
Goya Asman Sara Zameen Py Utar Aya Hy
Sitary Falak K Chamak Rahy Tery Wajood Py
Noor Chand Ka Teri Jabeen Py Utar Aya Hy
Tu Chaly To Moj My Ayain Khamosh Lehrain
Behr E Bekaran Teri Asteen Py Utar Aya Hy
Piyas Bhujti Hy Meh Khoron Ki Teri Nigah Sy
Mosam Bahar Dil E Ghamgeen Py Utar Aya Hy
Munkir Hua Hy Yun Wo Johar Ko Milny Sy
Koi Kafir Bus Ik 'Lafz E Nahin' Py Utar Aya Hy johar mumtaz
Goya Asman Sara Zameen Py Utar Aya Hy
Sitary Falak K Chamak Rahy Tery Wajood Py
Noor Chand Ka Teri Jabeen Py Utar Aya Hy
Tu Chaly To Moj My Ayain Khamosh Lehrain
Behr E Bekaran Teri Asteen Py Utar Aya Hy
Piyas Bhujti Hy Meh Khoron Ki Teri Nigah Sy
Mosam Bahar Dil E Ghamgeen Py Utar Aya Hy
Munkir Hua Hy Yun Wo Johar Ko Milny Sy
Koi Kafir Bus Ik 'Lafz E Nahin' Py Utar Aya Hy johar mumtaz
بلاؤ اُنہیں کہ آج رنگ پہ محفل بھی ہے بلاؤ اُنہیں کہ آج رنگ پہ محفل بھی ہے
جو میری زیست کا حاصل ہے،قاتل بھی ہے
قسمِ جاناں نے پہنا دی ہاتھوں میں چوڑیاں
ورنہ زورِ بازو بھی ہے ، جذبہِ دِل بھی ہے
دِل کے آنگن میں ڈیرے اُداسیوں کے ہیں
جبکہ بہار بھی، بارش بھی ہے، بادل بھی ہے
اُس کے اِن لفظوں سے جاں کی خلاصی ہوئی
یہ تو مجنوں ہے، دیوانا ہے، پاگل بھی ہے
آج تیرِ نیم کش تو دِل والے ہی سہیں گے
کہ زلف ہے بکھری ہوئی ، آنکھ میں کاجل بھی ہے
بہکاتا ہےجنوں پھر مجھے دشت کے لیے
ناؤ بھی ہےمیرے پاس، سامنے منزل بھی ہے johar mumtaz
جو میری زیست کا حاصل ہے،قاتل بھی ہے
قسمِ جاناں نے پہنا دی ہاتھوں میں چوڑیاں
ورنہ زورِ بازو بھی ہے ، جذبہِ دِل بھی ہے
دِل کے آنگن میں ڈیرے اُداسیوں کے ہیں
جبکہ بہار بھی، بارش بھی ہے، بادل بھی ہے
اُس کے اِن لفظوں سے جاں کی خلاصی ہوئی
یہ تو مجنوں ہے، دیوانا ہے، پاگل بھی ہے
آج تیرِ نیم کش تو دِل والے ہی سہیں گے
کہ زلف ہے بکھری ہوئی ، آنکھ میں کاجل بھی ہے
بہکاتا ہےجنوں پھر مجھے دشت کے لیے
ناؤ بھی ہےمیرے پاس، سامنے منزل بھی ہے johar mumtaz
وقتِ شباب ہے، ہتھیلی پہ شراب ہے وقتِ شباب ہے، ہتھیلی پہ شراب ہے
محفل ہوئی شرابی، وہ آج بے نقاب ہے
وہ پو چھتے ہیں ہم سے اپنے حسن کی مثال
اے خدا تو ہی بتا، کیا اس کا جواب ہے
بتایا ہےساقی نے مجھے آج اک راز
مے نہیں یہ، اُن کی آنکھوں کی آب ہے
آب تیرے گیسوِ عنبریں کی گویا شبنم
ہونٹ گلاب ہیں تو گویا چہرا ماہتاب ہے johar mumtaz
محفل ہوئی شرابی، وہ آج بے نقاب ہے
وہ پو چھتے ہیں ہم سے اپنے حسن کی مثال
اے خدا تو ہی بتا، کیا اس کا جواب ہے
بتایا ہےساقی نے مجھے آج اک راز
مے نہیں یہ، اُن کی آنکھوں کی آب ہے
آب تیرے گیسوِ عنبریں کی گویا شبنم
ہونٹ گلاب ہیں تو گویا چہرا ماہتاب ہے johar mumtaz
میرے عشق سب میری جاں تیرے ہیں میرے عشق سب میری جاں تیرے ہیں
دل کے سب خانےنہاں تیرے ہیں
اِک گُلِ رطب کیا ہے تیرے سامنے
تعریف کے سب گلستاں تیرے ہیں
لوگ تجھے پانے کوکیا کیا نہیں کرتے
جبکہ صحرا و گل میں نشاں تیرے ہیں
تیری جھیل سی آنکھوں کی مثال نہیں
یہ بال شبِ بے تاراں تیرے ہیں
میں اک جان کا نذرانہ کیا پیش کروں
یہ حسنِ تمام جہاں تیرے ہیں
johar mumtaz
دل کے سب خانےنہاں تیرے ہیں
اِک گُلِ رطب کیا ہے تیرے سامنے
تعریف کے سب گلستاں تیرے ہیں
لوگ تجھے پانے کوکیا کیا نہیں کرتے
جبکہ صحرا و گل میں نشاں تیرے ہیں
تیری جھیل سی آنکھوں کی مثال نہیں
یہ بال شبِ بے تاراں تیرے ہیں
میں اک جان کا نذرانہ کیا پیش کروں
یہ حسنِ تمام جہاں تیرے ہیں
johar mumtaz
دِل میں محسوس ہوتا ہے وجود کسی کا دِل میں محسوس ہوتا ہے وجود کسی کا
لگتا ہے کسی مکیں کا مکاں ہوا ہے دِل
جب سے دیکھی ہے وہ قاتل چشمِ یار
پاس میرے دو پل کا مہماں ہوا ہے دِل
دِل میں چھپا کے دیکھتا ہوں ماہ جبیں کو
قریب اُس کے ہو کر بھی انجاں ہوا ہے دل
زلف سلجھی تو وجود رات کا بن گیا
جو زلف الجھی تو پریشاں ہوا ہے دل
اُن سے مل کے ہوئی ابتدائ حیات کی
اِک اور عشق کی داستاں ہوا ہے دل
وہ بے خبر ہیں جوہؔر کے حالِ دِل سے
جس خوش نہاد کا رطب اللساں ہوا ہے دل johar mumtaz
لگتا ہے کسی مکیں کا مکاں ہوا ہے دِل
جب سے دیکھی ہے وہ قاتل چشمِ یار
پاس میرے دو پل کا مہماں ہوا ہے دِل
دِل میں چھپا کے دیکھتا ہوں ماہ جبیں کو
قریب اُس کے ہو کر بھی انجاں ہوا ہے دل
زلف سلجھی تو وجود رات کا بن گیا
جو زلف الجھی تو پریشاں ہوا ہے دل
اُن سے مل کے ہوئی ابتدائ حیات کی
اِک اور عشق کی داستاں ہوا ہے دل
وہ بے خبر ہیں جوہؔر کے حالِ دِل سے
جس خوش نہاد کا رطب اللساں ہوا ہے دل johar mumtaz
آباد شہرِ دِل کی بستی تیری چشمِ کرم سے ہے آباد شہرِ دِل کی بستی تیری چشمِ کرم سے ہے
میرے جسد میں جاں تیرے حکم سے ہے
جہاں بھی گیا ہوں تیرے ذکر سے سامنا ہوا
یہ دھڑکن، یہ سانس، یہ وجود تیرے دم سے ہے
سمندر کبھی الگ ہو نہیں سکتا اپنے ساحل سے
رشتہ ایساکچھ تیری یاد کا میری بزم سے ہے
جو دکھ میں سکھ اور سکھ میں دکھ دیتا ہے مجھے
میرا تعلق ایسے مہربان اور بے رحم سے ہے
کیسے ٹوٹے گا بھلا جوہؔر کا ساتھ تجھ سے
میرا اور اُس کا رشتہ تو سات جنم سے ہے
johar mumtaz
میرے جسد میں جاں تیرے حکم سے ہے
جہاں بھی گیا ہوں تیرے ذکر سے سامنا ہوا
یہ دھڑکن، یہ سانس، یہ وجود تیرے دم سے ہے
سمندر کبھی الگ ہو نہیں سکتا اپنے ساحل سے
رشتہ ایساکچھ تیری یاد کا میری بزم سے ہے
جو دکھ میں سکھ اور سکھ میں دکھ دیتا ہے مجھے
میرا تعلق ایسے مہربان اور بے رحم سے ہے
کیسے ٹوٹے گا بھلا جوہؔر کا ساتھ تجھ سے
میرا اور اُس کا رشتہ تو سات جنم سے ہے
johar mumtaz
اے جانِ غزل، اے جانِ وفا ہم تجھ کو ہردم یاد کریں اے جانِ غزل، اے جانِ وفا ہم تجھ کو ہردم یاد کریں
میری پلکوں پہ ٹھہرے آنسو تجھ سے وصل کی فریاد کریں
کبھی ہنستے ہیں ،کبھی روتے ہیں، تیرے ہجرِ طویل میں
تیری وفا پر یقین کرنے کو ہم نئے بہانے ایجاد کریں
تیرا غم سے سامنا ہو اگر، کیسے دلِ شکستہ سہے یہ
رہتے ہیں اسی فکر میں ہم، کیسے تجھ کو شاد کریں
وہ کہتے ہیں بے دخل کر دیں اُنکو کو ہم اپنے دل سے
کوئی اُن سے پوچھے کیسے اپنے دل کو ہم برباد کریں
اس زمانے کے ظلم و جبر کو کیونکر روک سکوں ہوں جوہر
محبت دیتی ہے اختیار اُن کو کہ وہ ہم پہ اسبتداد کریں
johar mumtaz
میری پلکوں پہ ٹھہرے آنسو تجھ سے وصل کی فریاد کریں
کبھی ہنستے ہیں ،کبھی روتے ہیں، تیرے ہجرِ طویل میں
تیری وفا پر یقین کرنے کو ہم نئے بہانے ایجاد کریں
تیرا غم سے سامنا ہو اگر، کیسے دلِ شکستہ سہے یہ
رہتے ہیں اسی فکر میں ہم، کیسے تجھ کو شاد کریں
وہ کہتے ہیں بے دخل کر دیں اُنکو کو ہم اپنے دل سے
کوئی اُن سے پوچھے کیسے اپنے دل کو ہم برباد کریں
اس زمانے کے ظلم و جبر کو کیونکر روک سکوں ہوں جوہر
محبت دیتی ہے اختیار اُن کو کہ وہ ہم پہ اسبتداد کریں
johar mumtaz
دو نین جب بھی نظر آتے ہیں دو نین جب بھی نظر آتے ہیں
سدا میرے دل میں اُتر جاتے ہیں
کاش کوئی سنتا افسانہِ دل میرا
لوگ سارے اپنے گھر جاتے ہیں
دیوانوں کوگھرسے نکلتا دیکھ کر
جاںےکیوں دور ابر جاتے ہیں
فرق کیا ہے زندگی و موت میں
ہم اکثر حیات سے ڈر جاتے ہیں
لگن سچی ہو تو میدانِ وفا میں
عاشق جان سے گذر جاتے ہیں
عشق کی منزل ہے ایسے مقام پر
راستے ذہنوں سے اُتر جاتے ہیں
تیری محفل میں جو آتے ہے جوہر
لے کر وہ چشمِ تر جاتے ہیں johar mumtaz
سدا میرے دل میں اُتر جاتے ہیں
کاش کوئی سنتا افسانہِ دل میرا
لوگ سارے اپنے گھر جاتے ہیں
دیوانوں کوگھرسے نکلتا دیکھ کر
جاںےکیوں دور ابر جاتے ہیں
فرق کیا ہے زندگی و موت میں
ہم اکثر حیات سے ڈر جاتے ہیں
لگن سچی ہو تو میدانِ وفا میں
عاشق جان سے گذر جاتے ہیں
عشق کی منزل ہے ایسے مقام پر
راستے ذہنوں سے اُتر جاتے ہیں
تیری محفل میں جو آتے ہے جوہر
لے کر وہ چشمِ تر جاتے ہیں johar mumtaz
یہ دل اُن کا ہو گیا ہے یہ دل اُن کا ہو گیا ہے
کہ درد بھی دوا ہو گیا ہے
کیوں کان دھروں دنیا پہ
اُن پہ ایمان میرا ہو گیا ہے
دکھائی ہےعشق نے ایسی منزل
ہر رستہ دنیا سے جدا ہو گیا ہے
کیسے بسے کوئی اُن آنکھوں میں
جو کسی کی آنکھوں سے رہا ہو گیا ہے
اُن کی یاد ایسی بسی ہےدل میں
اُنکے بنا ہر لمحہ سزا ہو گیا ہے
وہ عشق نہیں رہتا، دکھاوا بن گیا
جو عشق محتاجِ ادا ہو گیا ہے
تیرے رازوں سےکوئی واقف نہ ہوا
کبھی عشق جزا،کبھی سزاہوگیاہے
تیری تلاش میں جو فنا ہو گیا ہے
رہتی دنیا تک وہ بقا ہو گیا ہے
ہم تو پھر بھی عام ہیں جوہؔر
چاند بھی اُن پہ فدا ہو گیا ہے johar mumtaz
کہ درد بھی دوا ہو گیا ہے
کیوں کان دھروں دنیا پہ
اُن پہ ایمان میرا ہو گیا ہے
دکھائی ہےعشق نے ایسی منزل
ہر رستہ دنیا سے جدا ہو گیا ہے
کیسے بسے کوئی اُن آنکھوں میں
جو کسی کی آنکھوں سے رہا ہو گیا ہے
اُن کی یاد ایسی بسی ہےدل میں
اُنکے بنا ہر لمحہ سزا ہو گیا ہے
وہ عشق نہیں رہتا، دکھاوا بن گیا
جو عشق محتاجِ ادا ہو گیا ہے
تیرے رازوں سےکوئی واقف نہ ہوا
کبھی عشق جزا،کبھی سزاہوگیاہے
تیری تلاش میں جو فنا ہو گیا ہے
رہتی دنیا تک وہ بقا ہو گیا ہے
ہم تو پھر بھی عام ہیں جوہؔر
چاند بھی اُن پہ فدا ہو گیا ہے johar mumtaz
جاناں میری آنکھوں میں سجے سپنے تیرے ہیں جاناں میری آنکھوں میں سجے سپنے تیرے ہیں
ہیں جو خوشیوں کے پَل میرے اپنے، تیرے ہیں
یہ کہہ کے دور بٹھا دیا رقیب نے دور مجھے
آگے جلوہِ حُسنِ صنم سے پر جلنے تیرے ہیں
لگاوٗ نہ جام ہونٹوں سے اے نازک اندام حسینہ
کیسے سنبھلے گے دل جب قدم بہکنے تیرے ہیں
بے بس ہیں سب حکیم و طبیب مریضِ ہجر کیلیے
صرف قاتل نے ہی سارے زخم بھرنے تیرے ہیں
دلِ نازک ابھی زندہ ہے، ہے کو زغم لگانے کو
عندلیب زغم سے ہی جوہر شعر مہکنے تیرے ہیں
johar mumtaz
ہیں جو خوشیوں کے پَل میرے اپنے، تیرے ہیں
یہ کہہ کے دور بٹھا دیا رقیب نے دور مجھے
آگے جلوہِ حُسنِ صنم سے پر جلنے تیرے ہیں
لگاوٗ نہ جام ہونٹوں سے اے نازک اندام حسینہ
کیسے سنبھلے گے دل جب قدم بہکنے تیرے ہیں
بے بس ہیں سب حکیم و طبیب مریضِ ہجر کیلیے
صرف قاتل نے ہی سارے زخم بھرنے تیرے ہیں
دلِ نازک ابھی زندہ ہے، ہے کو زغم لگانے کو
عندلیب زغم سے ہی جوہر شعر مہکنے تیرے ہیں
johar mumtaz
ہر امتحان میں ناکامی ہے شاملِ نصیب شاید ہر امتحان میں ناکامی ہے شاملِ نصیب شاید
بنی ہے اپنی قسمت ہی ایسی عجیب شاید
اس کو دیکھ کے ہم بھی نکلے تھے بیچنے دل
ہمیں دیکھا سرِبازار تو ہو گیا غریب شاید
آنکھوں پہ اس لیے گِرا رکھی ہیں پلکیں
زمانہ دیکھ کے تجھے ہو جائے گا رقیب شاید
ہو رہے ہیں دور تجھ سے یہ سوچ کے
کر دیں گئے فاصلے ہمیں قریب شاید
بس اک بار گذر جاؤ جوہر کے سامنے سے
پا جائے گا سکون دلِ حبیب شاید
johar mumtaz
بنی ہے اپنی قسمت ہی ایسی عجیب شاید
اس کو دیکھ کے ہم بھی نکلے تھے بیچنے دل
ہمیں دیکھا سرِبازار تو ہو گیا غریب شاید
آنکھوں پہ اس لیے گِرا رکھی ہیں پلکیں
زمانہ دیکھ کے تجھے ہو جائے گا رقیب شاید
ہو رہے ہیں دور تجھ سے یہ سوچ کے
کر دیں گئے فاصلے ہمیں قریب شاید
بس اک بار گذر جاؤ جوہر کے سامنے سے
پا جائے گا سکون دلِ حبیب شاید
johar mumtaz
وار جو نینوں سے کر جاؤ گے وار جو نینوں سے کر جاؤ گے
معلوم نہ تھادل میں اُترجاؤ گے
اُن کو دیکھتےہی ناداں اشکوں
طوفان کی طرح بپھر جاؤ گے
اے دلِ ناداں تیراکیاکروں میں
یوں بھی ہوبیتاب دیکھ کہ مرجاؤ گے
مرتا نہ تم پہ جو معلوم ہوتا
چھوڑ کے یوں بنا قبر جاؤ گے
کیوں نہ زندگی انہیں دے دیں
ویسے بھی تو تم مر جاؤ گے
johar mumtaz
معلوم نہ تھادل میں اُترجاؤ گے
اُن کو دیکھتےہی ناداں اشکوں
طوفان کی طرح بپھر جاؤ گے
اے دلِ ناداں تیراکیاکروں میں
یوں بھی ہوبیتاب دیکھ کہ مرجاؤ گے
مرتا نہ تم پہ جو معلوم ہوتا
چھوڑ کے یوں بنا قبر جاؤ گے
کیوں نہ زندگی انہیں دے دیں
ویسے بھی تو تم مر جاؤ گے
johar mumtaz
جو بھول گئے تھے برسوں پہلے،آج یاد آیا تو بہت روئے ہیں جو بھول گئے تھے برسوں پہلے،آج یاد آیا تو بہت روئے ہیں
ہنستے تھے اوروں کےغم پہ پہلے،خودغم کھایا تو بہت روئے ہیں
کیسے کاٹتا ہوں تنہاہی کی رات، کسےبتاوں اپنےدل کی بات
جب بھی چاند میں اُن کا چہرا ، نظر آیا تو بہت روئے ہیں
سوچا تھا لوگوں سے ملیں گے، کچھ کہیں گے کچھ سنیں گے
جب سب نے قصہِ عشق سنایا، تو بہت روئے ہیں
جب بھی گئے دل بہلانے کو،تیری یاد سے پیچھا چھڑانے کو
جب گلوں میں ،کلیوں میں تیرا، لمس پایا تو بہت روئے ہیں
کیے تھے سجدے ہزار ہم نے، کی تھیں منتیں ہزار ان کی
جب در پہ اپنے خالی ہاتھ ، قاصد آیا تو بہت روئے ہیں
اُنہیں بھی بہت دُکھ تھا، شاید کسی کے بچھڑ جانے کا
شعر اٰن کو جوہؔر نے جب کوئ ، سنایا تو بہت روئے ہیں
johar mumtaz
ہنستے تھے اوروں کےغم پہ پہلے،خودغم کھایا تو بہت روئے ہیں
کیسے کاٹتا ہوں تنہاہی کی رات، کسےبتاوں اپنےدل کی بات
جب بھی چاند میں اُن کا چہرا ، نظر آیا تو بہت روئے ہیں
سوچا تھا لوگوں سے ملیں گے، کچھ کہیں گے کچھ سنیں گے
جب سب نے قصہِ عشق سنایا، تو بہت روئے ہیں
جب بھی گئے دل بہلانے کو،تیری یاد سے پیچھا چھڑانے کو
جب گلوں میں ،کلیوں میں تیرا، لمس پایا تو بہت روئے ہیں
کیے تھے سجدے ہزار ہم نے، کی تھیں منتیں ہزار ان کی
جب در پہ اپنے خالی ہاتھ ، قاصد آیا تو بہت روئے ہیں
اُنہیں بھی بہت دُکھ تھا، شاید کسی کے بچھڑ جانے کا
شعر اٰن کو جوہؔر نے جب کوئ ، سنایا تو بہت روئے ہیں
johar mumtaz
میری زندگی کا اک ادھورا خواب باقی ہے میری زندگی کا اک ادھورا خواب باقی ہے
کہ
دسمبر کے موسم میں
تیری آنکھوں کی جھلمل میں
اپنا عکس میں دیکھوں
تجھے دیکھوں ، تجھے سوچوں
تیری آنکھوں کے میخانے
کا اک اک گھونٹ میں پی لوں
بس اک شب دسمبر کی
تیرے ساتھ میں جی لوں
مجھے پھر فرق نہیں پڑتا
کہ ماہ و سال کا کتنا
ابھی عذاب باقی ہے
میری زندگی کا بس
یہی اک خواب باقی ہے
johar mumtaz
کہ
دسمبر کے موسم میں
تیری آنکھوں کی جھلمل میں
اپنا عکس میں دیکھوں
تجھے دیکھوں ، تجھے سوچوں
تیری آنکھوں کے میخانے
کا اک اک گھونٹ میں پی لوں
بس اک شب دسمبر کی
تیرے ساتھ میں جی لوں
مجھے پھر فرق نہیں پڑتا
کہ ماہ و سال کا کتنا
ابھی عذاب باقی ہے
میری زندگی کا بس
یہی اک خواب باقی ہے
johar mumtaz
دسمبر پھر سے آگیا ہے وعدہ کر کے جانے والے
دسمبر پھر سے آ گیا ہے
تیرے آنے کی اب تک
دل کو میرے اُمید نہیں ہے
چاہے آگ لگے دسمبر کو پھر
جس میں تیری دید نہیں ہے
بیٹھی ہےدل میں آگ لگاےٗ
خواہش اِک شام بتانے کی
گلاب سے خوشبو چرانے کی
جو آنکھیں تمھاری کہتی ہیں
وہ کہانی پھر دہرانے کی
کچھ شعر جو تم پہ لکھے ہیں
سامنے تیرے سنانے کی
جو پاوٗ کسی شام اسے تم
دینا میرا پیغام اُسے تم
تیرے وعدہ پہ جینے والا
مرنے پھر سے اگیا ہے
وعدہ کر جانے والے
دسمبر پھر سے آگیا ہے johar mumtaz
دسمبر پھر سے آ گیا ہے
تیرے آنے کی اب تک
دل کو میرے اُمید نہیں ہے
چاہے آگ لگے دسمبر کو پھر
جس میں تیری دید نہیں ہے
بیٹھی ہےدل میں آگ لگاےٗ
خواہش اِک شام بتانے کی
گلاب سے خوشبو چرانے کی
جو آنکھیں تمھاری کہتی ہیں
وہ کہانی پھر دہرانے کی
کچھ شعر جو تم پہ لکھے ہیں
سامنے تیرے سنانے کی
جو پاوٗ کسی شام اسے تم
دینا میرا پیغام اُسے تم
تیرے وعدہ پہ جینے والا
مرنے پھر سے اگیا ہے
وعدہ کر جانے والے
دسمبر پھر سے آگیا ہے johar mumtaz