Poetries by Maria Riaz
Ek Tumhari DiL Lage Nay Kitni Hasaratein Maar Di.
Ek Tumhari DiL Lage Nay
Kitni Khuwaishein Tor Di
Ek Tumhari DiL Lage Nay
Kitni Aarzoo'ein Mar Di
Ek Tumhari DiL Lage Nay'
Kitni Muskharatein Urra Di
Ek Tumhari DiL Lage Nay
Kitni Shamma'ein Bhuja Di
Ek Tumhari DiL Lage Nay
Kitni Raatein Jaga Di
Ek Tumhari DiL Lage Nay
Meri Sari Muhbbtein Maar Di
Ek Tumhri DiL Lage Nay Maria Ghouri
Ek Tumhari DiL Lage Nay
Kitni Khuwaishein Tor Di
Ek Tumhari DiL Lage Nay
Kitni Aarzoo'ein Mar Di
Ek Tumhari DiL Lage Nay'
Kitni Muskharatein Urra Di
Ek Tumhari DiL Lage Nay
Kitni Shamma'ein Bhuja Di
Ek Tumhari DiL Lage Nay
Kitni Raatein Jaga Di
Ek Tumhari DiL Lage Nay
Meri Sari Muhbbtein Maar Di
Ek Tumhri DiL Lage Nay Maria Ghouri
خواب ۔۔۔۔۔ ! یقین مانو عذاب دیکھے ہیں
جب سے تیرے خواب دیکھے ہیں
کھولے جب بند محبت نامے
ہر صفحے پہ سوکھے گلاب دیکھے ہیں
اک تیری چاہ کر کے دیکھ کیا ظلم کیا
لمحے اپنے بیتاب دیکھے ہیں
جن کا کوئی حساب نہیں ہوتا
ایسے اعمال بےے حساب دیکھے ہیں
تقدیر سے مٹا کے تیرے نشاں
عجب لکیروں کے جواب دیکھے ہیں
رات کی وحشتوں سے کر کے دوستی
روٹھے مہتاب دیکھے ہیں
کر کے محبت اک انسان سے ماریہ
دوغلے احباب دیکھے ہیں maria ghourri
جب سے تیرے خواب دیکھے ہیں
کھولے جب بند محبت نامے
ہر صفحے پہ سوکھے گلاب دیکھے ہیں
اک تیری چاہ کر کے دیکھ کیا ظلم کیا
لمحے اپنے بیتاب دیکھے ہیں
جن کا کوئی حساب نہیں ہوتا
ایسے اعمال بےے حساب دیکھے ہیں
تقدیر سے مٹا کے تیرے نشاں
عجب لکیروں کے جواب دیکھے ہیں
رات کی وحشتوں سے کر کے دوستی
روٹھے مہتاب دیکھے ہیں
کر کے محبت اک انسان سے ماریہ
دوغلے احباب دیکھے ہیں maria ghourri
جب خواب پلکوں پہ نہ آتے ہوں جب نیند سے آنکھیں بوجھل ہوں
جب خواب پلکوں پہ نہ آتے ہوں
جب ہر سو تنہائی کا رقص ہوتا ہو
جب موسم ہجر گیت سناتا ہو
جب چاند بھی بدلیوں میں چھپا رہتا ہو
جب روشن چراغ سانسوں کی لو سے بجھ جاتے ہوں
جب اتنا سناٹا ہو خاموشیاں بھی شور کرتی ہوں
جب آنسوؤں کی ٹپ ٹپ دامن بھگو جاتی ہو
جب کمرہ زندان سا محسوس ہونے لگ جاتا ہو
تب تم اک کام کرنا
سب خطوط جلا کر
سب یادیں بھلا کر
سب نقش محبت کے
دل سے مٹا کر
ہتھیلی سے اس
وحشت کی روشن
لکیر بجھا کر
خوش اسلوبی سے
محبت کا اختتام کرنا maria ghouri
جب خواب پلکوں پہ نہ آتے ہوں
جب ہر سو تنہائی کا رقص ہوتا ہو
جب موسم ہجر گیت سناتا ہو
جب چاند بھی بدلیوں میں چھپا رہتا ہو
جب روشن چراغ سانسوں کی لو سے بجھ جاتے ہوں
جب اتنا سناٹا ہو خاموشیاں بھی شور کرتی ہوں
جب آنسوؤں کی ٹپ ٹپ دامن بھگو جاتی ہو
جب کمرہ زندان سا محسوس ہونے لگ جاتا ہو
تب تم اک کام کرنا
سب خطوط جلا کر
سب یادیں بھلا کر
سب نقش محبت کے
دل سے مٹا کر
ہتھیلی سے اس
وحشت کی روشن
لکیر بجھا کر
خوش اسلوبی سے
محبت کا اختتام کرنا maria ghouri
محبت جب ہو جائے مری پلکوں سے نیند مت
چراؤ
مجھے محبت کے خواب
مت دکھاؤ
مری آنکھوں پہ رکھ
کر دست الفت
مری اس جہان سے
ملاقات مت کراؤ
دیکھو نا!
ابھی لاابالی عمر میں
ہوں
مجھے عشق کے جہاں
مت لے جاؤ
واقف تم بھی ہو
خوب
محبت جب ھو جائے
پھر کچھ بھی اپنا نہی
رہتا
بدن میں سمائی روح
تک اپنی نہی رہتی
دل کی تو تم
بات ہی چھوڑ دو
الفاط تک اپنے نہی رہتے
کچھ بھی اپنا نہی رہتا
اور تم یہ بھی جانتے
ہو
اس راستے منزلیں کہاں
ملتی ہیں
لوگ بھٹکتے رہتے ہیں
صحراؤں میں
الفت کی تا عمر سوغاتیں
کہاں ملتی ہیں
محبت اک ایسا چاند ہے
جس کی چاندنی
چار دن کی ہے
اس چاند پر جب گرہن
لگ جائے
پھر روشن راتیں کہاں
ملتی ہیں maria ghouri
چراؤ
مجھے محبت کے خواب
مت دکھاؤ
مری آنکھوں پہ رکھ
کر دست الفت
مری اس جہان سے
ملاقات مت کراؤ
دیکھو نا!
ابھی لاابالی عمر میں
ہوں
مجھے عشق کے جہاں
مت لے جاؤ
واقف تم بھی ہو
خوب
محبت جب ھو جائے
پھر کچھ بھی اپنا نہی
رہتا
بدن میں سمائی روح
تک اپنی نہی رہتی
دل کی تو تم
بات ہی چھوڑ دو
الفاط تک اپنے نہی رہتے
کچھ بھی اپنا نہی رہتا
اور تم یہ بھی جانتے
ہو
اس راستے منزلیں کہاں
ملتی ہیں
لوگ بھٹکتے رہتے ہیں
صحراؤں میں
الفت کی تا عمر سوغاتیں
کہاں ملتی ہیں
محبت اک ایسا چاند ہے
جس کی چاندنی
چار دن کی ہے
اس چاند پر جب گرہن
لگ جائے
پھر روشن راتیں کہاں
ملتی ہیں maria ghouri
خواب خواب ہی ہوتے ہیں ستاروں کی مانند خواب
مرے سجا لیے ، اندھیری
وحشت میں
تاریک چمن کی گود
میں مسکراتے رہیں
جگمگاتے رہیں
لیکن؟
کب تک آخر؟
اک لہر تیز سحر
کی اٹھی
شکست دی سارے
خواب خیال چکنا
چور کیے
سحر کی حقیقت
نے باور کرا دیا
سارے خواب بجھا دیئے
خواب خواب ہی ہوتے ہیں
خواب خواب ہی رہتے ہیں
حقیقت سحر کو نظر انداز نہی
کر سکتے
ہاں! البتہ شب کی تاریکی
کو ضرور ہلا سکتے ہیں
خواب خواب ہی ہوتے ہیں
maria ghouri
مرے سجا لیے ، اندھیری
وحشت میں
تاریک چمن کی گود
میں مسکراتے رہیں
جگمگاتے رہیں
لیکن؟
کب تک آخر؟
اک لہر تیز سحر
کی اٹھی
شکست دی سارے
خواب خیال چکنا
چور کیے
سحر کی حقیقت
نے باور کرا دیا
سارے خواب بجھا دیئے
خواب خواب ہی ہوتے ہیں
خواب خواب ہی رہتے ہیں
حقیقت سحر کو نظر انداز نہی
کر سکتے
ہاں! البتہ شب کی تاریکی
کو ضرور ہلا سکتے ہیں
خواب خواب ہی ہوتے ہیں
maria ghouri
محبت جب رونے لگتی ہے تنہائی درد پرونے لگتی ہے
ہر شے اجنبی لگنے لگتی ہے
اندھیری وحشت بے دلی سے ہنسنے لگتی ہے
دشت سی اک ابھرنے لگتی ہے
محبت جب رونے لگتی ہے
محبت جب رونے لگتی ہے
پلکیں ٹوٹنے لگتی ہیں
آنکھیں نم ہونے لگتی ہیں
شمعیں بجھنے لگتی ہیں
امیدیں بکھرنے لگتی ہیں
وفائیں جب رونے لگتی ہیں
وفائیں جب رونے لگتی ہیں
دعا ہر بے اثر پڑنے لگتی ہے
آہ مدھم ہونے لگتی ہے
محبت جب رونے لگتی ہے
محبت جب رونے لگتی ہے
مدتیں سسکنے لگتی ہیں
فضائیں تھمنے لگتی ہیں
وفائیں جب رونے لگتی ہیں
وفائیں جب رونے لگتی ہیں maria ghouri
ہر شے اجنبی لگنے لگتی ہے
اندھیری وحشت بے دلی سے ہنسنے لگتی ہے
دشت سی اک ابھرنے لگتی ہے
محبت جب رونے لگتی ہے
محبت جب رونے لگتی ہے
پلکیں ٹوٹنے لگتی ہیں
آنکھیں نم ہونے لگتی ہیں
شمعیں بجھنے لگتی ہیں
امیدیں بکھرنے لگتی ہیں
وفائیں جب رونے لگتی ہیں
وفائیں جب رونے لگتی ہیں
دعا ہر بے اثر پڑنے لگتی ہے
آہ مدھم ہونے لگتی ہے
محبت جب رونے لگتی ہے
محبت جب رونے لگتی ہے
مدتیں سسکنے لگتی ہیں
فضائیں تھمنے لگتی ہیں
وفائیں جب رونے لگتی ہیں
وفائیں جب رونے لگتی ہیں maria ghouri
کاش کوئی تو ہوتا کاش کوئی تو ہوتا
جو مرے دل پہ ہاتھ
دھر کے کہتا
اس دل کے سب درد
سب غم سب غم زدہ
فسانے
مرے صرف مرے ہیں
کاش کوئی تو ہوتا
جو مری پلکوں سے
اپنی پلکیں ملا کے
کہتا
اس پلکوں کی نمی
مری صرف مری ہے
کاش کوئی تو ہوتا
جو مرے ہونٹوں کے
شکوے اپنے لبوں پہ سجا کے
کہتا
اس لبوں کی سب شکایتیں
مری صرف مری
ہیں
اے کاش کوئی تو
ہوتا
جو مرے گرد تنہائیوں
کا سخت غلاف کاٹ کے
کہتا
"ماریہ" تیرے ان انمول
لمحوں کی سوغاتیں
مری صرف مری ہیں maria ghouri
جو مرے دل پہ ہاتھ
دھر کے کہتا
اس دل کے سب درد
سب غم سب غم زدہ
فسانے
مرے صرف مرے ہیں
کاش کوئی تو ہوتا
جو مری پلکوں سے
اپنی پلکیں ملا کے
کہتا
اس پلکوں کی نمی
مری صرف مری ہے
کاش کوئی تو ہوتا
جو مرے ہونٹوں کے
شکوے اپنے لبوں پہ سجا کے
کہتا
اس لبوں کی سب شکایتیں
مری صرف مری
ہیں
اے کاش کوئی تو
ہوتا
جو مرے گرد تنہائیوں
کا سخت غلاف کاٹ کے
کہتا
"ماریہ" تیرے ان انمول
لمحوں کی سوغاتیں
مری صرف مری ہیں maria ghouri
ستمبر کی شامیں کتنی اداس بیابان
ستمبر کی شامیں
پنچھی کیا
ہوائیں بھی گم صم گم صم
پتے بھی اداس
شاخوں سے ڈھلکے
سورج کی ڈوبتی کرنیں
اداسیوں کا لباس اوڑھے
روز شام تنہائیوں کا جام
لیے اک اداس پیغام لیے
ڈوب جاتی ہیں
ان کرنوں کی تپش بھی
مدھم پڑ جاتی ہے
یہ کرنیں جب نگاہوں
کے اداس سمندر سے
ٹکراتیں ہیں
نگاہوں کی اداسی ان
میں یوں سماتی ہے
جیسے دو اداس لوگ
کئی برس بعد مل رہیں ہوں
ستمبر کی شامیں
اکثر اداسیوں کا
سنہری لباس پہنے ہوتی ہیں
دل کی ویران گلیوں
میں یہ شامیں اداسیوں
کے گیت گنگاتی ہیں
ستمبر کی شامیں اکثر و بیشتر بے حد اداس ہوتی ہیں
ستمبر کی شامیں بہت
بہت اداس ہوا کرتی ہیں
خیالات بھی سوچ کی حد
تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں
لفظ بھی زباں کی دہلیز پار
نہی کر پاتے ہیں
احساس ندامت کے سارے پل ماند پڑ جاتے ہیں
فرقت کے لمحے محبت کے احساس سے بانجھ ہو جاتے ہیں
ستمبر کی بیرن شامیں
جب فلک سے زمیں پہ
اترا کرتی ہیں
سائے بھی چھوٹے
پڑ جاتے ہیں
خود میں سمٹ کر خدا جانے
کیا کہنا چاہتے ہیں
اک اپنے کو دل جب بار بار
یاد کرتا ہے
نگاہوں سے پانی اترنے لگ
جاتا ہے
ایسے میں ستمبر کی
شامیں بہت بہت اداس کر جاتی ہیں
ستمبر کی شامیں بے حد اداس ہوا کرتی ہیں . . . maria ghouri
ستمبر کی شامیں
پنچھی کیا
ہوائیں بھی گم صم گم صم
پتے بھی اداس
شاخوں سے ڈھلکے
سورج کی ڈوبتی کرنیں
اداسیوں کا لباس اوڑھے
روز شام تنہائیوں کا جام
لیے اک اداس پیغام لیے
ڈوب جاتی ہیں
ان کرنوں کی تپش بھی
مدھم پڑ جاتی ہے
یہ کرنیں جب نگاہوں
کے اداس سمندر سے
ٹکراتیں ہیں
نگاہوں کی اداسی ان
میں یوں سماتی ہے
جیسے دو اداس لوگ
کئی برس بعد مل رہیں ہوں
ستمبر کی شامیں
اکثر اداسیوں کا
سنہری لباس پہنے ہوتی ہیں
دل کی ویران گلیوں
میں یہ شامیں اداسیوں
کے گیت گنگاتی ہیں
ستمبر کی شامیں اکثر و بیشتر بے حد اداس ہوتی ہیں
ستمبر کی شامیں بہت
بہت اداس ہوا کرتی ہیں
خیالات بھی سوچ کی حد
تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں
لفظ بھی زباں کی دہلیز پار
نہی کر پاتے ہیں
احساس ندامت کے سارے پل ماند پڑ جاتے ہیں
فرقت کے لمحے محبت کے احساس سے بانجھ ہو جاتے ہیں
ستمبر کی بیرن شامیں
جب فلک سے زمیں پہ
اترا کرتی ہیں
سائے بھی چھوٹے
پڑ جاتے ہیں
خود میں سمٹ کر خدا جانے
کیا کہنا چاہتے ہیں
اک اپنے کو دل جب بار بار
یاد کرتا ہے
نگاہوں سے پانی اترنے لگ
جاتا ہے
ایسے میں ستمبر کی
شامیں بہت بہت اداس کر جاتی ہیں
ستمبر کی شامیں بے حد اداس ہوا کرتی ہیں . . . maria ghouri