Poetries by مظہر حسین سیّد
جو لفظ سینہء قرطاس پر نہیں آیا جو لفظ سینہ قرطاس پر نہیں آیا
چراغ ہے جو سرِ رہگزر نہیں آیا
وہ پھول بیچنے نکلا تھا صبح بستی میں
پھر اس کے بعد کبھی لوٹ کر نہیں آیا
لہو جلایا گیا رتجگے گزارے گئے
ہمیں تو غیب سے علم و ہنر نہیں آیا
یہ داستانِ الم کس طرح بیاں ہو گی
انھیں سکوت سمجھنا اگر نہیں آیا
یہ احتجاج تھا اس شہر کی فضا کے خلاف
کسی درخت پہ کوئی ثمر نہیں آیا
حدودِشہر کے باہر ہوا تھا رقصِ ہوا
یہاں تو عکسِ ہوا بھی نظر نہیں آیا
تمام عمر کی وحشت کے بعد بھی مظہر
سمجھ میں قصہ ء شام و سحر نہیں آیا مظہر حسین سیّد
چراغ ہے جو سرِ رہگزر نہیں آیا
وہ پھول بیچنے نکلا تھا صبح بستی میں
پھر اس کے بعد کبھی لوٹ کر نہیں آیا
لہو جلایا گیا رتجگے گزارے گئے
ہمیں تو غیب سے علم و ہنر نہیں آیا
یہ داستانِ الم کس طرح بیاں ہو گی
انھیں سکوت سمجھنا اگر نہیں آیا
یہ احتجاج تھا اس شہر کی فضا کے خلاف
کسی درخت پہ کوئی ثمر نہیں آیا
حدودِشہر کے باہر ہوا تھا رقصِ ہوا
یہاں تو عکسِ ہوا بھی نظر نہیں آیا
تمام عمر کی وحشت کے بعد بھی مظہر
سمجھ میں قصہ ء شام و سحر نہیں آیا مظہر حسین سیّد
مری محنت سے دنیا چل رہی ہے مری محنت سے دنیا چل رہی ہے
مرے آنگن میں غربت پل رہی ہے
میں ان دانشوروں سے پوچھتا ہوں
یہ کالی رات کب تک ڈھل رہی ہے
تمہاری خواب گہ میں شمع بن کر
ہماری زندگانی جل رہی ہے
ٹپکتا ہے کرائے کا مکاں بھی
مری دیوارِ جاں بھی گل رہی ہے
بدلنے کی نہیں ہے میری حالت
وہی ہے آج بھی جو کل رہی ہے
لباس ِمفلسی پہنا ہوا ہے
غمی چہرے پہ کالک مل رہی ہے مظہر حسین سیّد
مرے آنگن میں غربت پل رہی ہے
میں ان دانشوروں سے پوچھتا ہوں
یہ کالی رات کب تک ڈھل رہی ہے
تمہاری خواب گہ میں شمع بن کر
ہماری زندگانی جل رہی ہے
ٹپکتا ہے کرائے کا مکاں بھی
مری دیوارِ جاں بھی گل رہی ہے
بدلنے کی نہیں ہے میری حالت
وہی ہے آج بھی جو کل رہی ہے
لباس ِمفلسی پہنا ہوا ہے
غمی چہرے پہ کالک مل رہی ہے مظہر حسین سیّد
کاروبار خدا کا شکر ہے ، اب کام اچھّا چل رہا ہے
جس جگہ ہم لوگ بیٹھے ہیں ، جہاں اب کارخانہ ہے
یہاں دس سال پہلے تک
فقط اک جھونپڑی سی تھی ، بڑا مشکل گزارا تھا
میرا بیٹا تھا یامیں تھا، جو دن بھر اونگھتے اخبار پڑھتے
آمریت تھی ، کہ جس کو گالیاں دیتے ہمارا وقت کٹتا تھا
یہاں اب تیس کاریگر ہیں ، لیکن سر کھجانے کی ہمیں فرصت نہیں ملتی
سنائیں اب یہاں جمہوریت کا راج ہے یا آمریت
"خیر چھوڑیں کام کی کچھ بات کرتے ہیں "
ابھی ہفتہ ہوا باہر سے بھی میں نے مشینیں کچھ منگائی ہیں
مجھے لگتا ہے ، اب شفٹیں لگانا بھی ضروری ہو گیا ہے
کام بڑھتا جا رہا ہے
شکر اس ذات کا اور مہربانی ہے ، حکومت کی
ابھی تو پچھلا آرڈر بھی مکمل ہو نہ پایا تھا ،
کہ پھر کل شام کو ہی ،
"ایک سو پچیس تابوتوں کا آرڈر مِل گیا ہے " مظہر حسین سیّد
جس جگہ ہم لوگ بیٹھے ہیں ، جہاں اب کارخانہ ہے
یہاں دس سال پہلے تک
فقط اک جھونپڑی سی تھی ، بڑا مشکل گزارا تھا
میرا بیٹا تھا یامیں تھا، جو دن بھر اونگھتے اخبار پڑھتے
آمریت تھی ، کہ جس کو گالیاں دیتے ہمارا وقت کٹتا تھا
یہاں اب تیس کاریگر ہیں ، لیکن سر کھجانے کی ہمیں فرصت نہیں ملتی
سنائیں اب یہاں جمہوریت کا راج ہے یا آمریت
"خیر چھوڑیں کام کی کچھ بات کرتے ہیں "
ابھی ہفتہ ہوا باہر سے بھی میں نے مشینیں کچھ منگائی ہیں
مجھے لگتا ہے ، اب شفٹیں لگانا بھی ضروری ہو گیا ہے
کام بڑھتا جا رہا ہے
شکر اس ذات کا اور مہربانی ہے ، حکومت کی
ابھی تو پچھلا آرڈر بھی مکمل ہو نہ پایا تھا ،
کہ پھر کل شام کو ہی ،
"ایک سو پچیس تابوتوں کا آرڈر مِل گیا ہے " مظہر حسین سیّد
شجر کلام کریں شہر بھی نیا ہو جائے شجر کلام کریں شہر بھی نیا ہو جائے
میں ایک اسم پڑھوں اور معجزہ ہو جائے
یہ لوگ فرطِ تحیر سے مر بھی سکتے ہیں
اگر یہ خواب حقیقت میں رونما ہو جائے
گلے ملو کہ سلامت ہیں آج ہم دونوں
کسے خبر کہ یہاں کون کب جدا ہو جائے
یہ میں جو برملا اقبالِ عشق کرتا ہوں
عجب نہیں کہ مجھے عشق میں سزا ہو جائے
یہ دل قیام پہ مائل ہے ان دنوں ورنہ
عصا اُٹھاؤں تو دریا بھی راستہ ہو جائے مظہر حسین سیّد
میں ایک اسم پڑھوں اور معجزہ ہو جائے
یہ لوگ فرطِ تحیر سے مر بھی سکتے ہیں
اگر یہ خواب حقیقت میں رونما ہو جائے
گلے ملو کہ سلامت ہیں آج ہم دونوں
کسے خبر کہ یہاں کون کب جدا ہو جائے
یہ میں جو برملا اقبالِ عشق کرتا ہوں
عجب نہیں کہ مجھے عشق میں سزا ہو جائے
یہ دل قیام پہ مائل ہے ان دنوں ورنہ
عصا اُٹھاؤں تو دریا بھی راستہ ہو جائے مظہر حسین سیّد