Poetries by Mohammad Danishwer
اقرا خلوت کے کچھ لمحات چاہتا ہوں
زندگی سے کچھ پل ادھار چاہتا ہوں
کسی کی خاطر میں سوچ و بچار چاہتا ہوں
اب مَیں مجھے نہیں، اسے بار بار چاہتا ہوں
جو دیکھے تو ہر شے میں مَیں دِکھوں
تڑپے میری دید کو، میں وہ نگاہ چاہتا ہوں
وہ جو میرے ہر غم کو غلط کر دے
ایسی کسی ہستی کا ساتھ چاہتا ہوں
لذت سے جس کے باقی کوئی کسر نہ رہے
میں زندگی سے وہ توشہِ بے مثال چاہتا ہوں
خالی پن کو میرے وہ برابر بھر دے
میں وہ یار، کردار، گفتار ایک ساتھ چاہتا ہوں
تنقید کی بوچھاڑ میں جو تڑپ اٹھے
بے زبانی میں مَیں وہ زبان چاہتا ہوں
سمجھے، تو سمجھ جائے الٹے لفظوں کو میرے
مَیں دوستوں میں کسی دوست کو بے پناہ چاہتا ہوں Mohammad Danishwer
زندگی سے کچھ پل ادھار چاہتا ہوں
کسی کی خاطر میں سوچ و بچار چاہتا ہوں
اب مَیں مجھے نہیں، اسے بار بار چاہتا ہوں
جو دیکھے تو ہر شے میں مَیں دِکھوں
تڑپے میری دید کو، میں وہ نگاہ چاہتا ہوں
وہ جو میرے ہر غم کو غلط کر دے
ایسی کسی ہستی کا ساتھ چاہتا ہوں
لذت سے جس کے باقی کوئی کسر نہ رہے
میں زندگی سے وہ توشہِ بے مثال چاہتا ہوں
خالی پن کو میرے وہ برابر بھر دے
میں وہ یار، کردار، گفتار ایک ساتھ چاہتا ہوں
تنقید کی بوچھاڑ میں جو تڑپ اٹھے
بے زبانی میں مَیں وہ زبان چاہتا ہوں
سمجھے، تو سمجھ جائے الٹے لفظوں کو میرے
مَیں دوستوں میں کسی دوست کو بے پناہ چاہتا ہوں Mohammad Danishwer
عکس خالی زندگی کے شفاف ورق پر
خاکہِ مستقبلِ روشن بنا کر
لطف زندگی مجھے چکھا کر
جینے کی وجہ مجھے بتلا کر
اندھیروں سے مجھے نکال کر
مینارِ روشن پر مجھے چڑھا کر
طبیعت کو میری جلا کر
خام سے مجھے کندن بنا کر
کیوں کچھ کمی باقی لگتی ہے
سب ہے، پر یہ ترقی عجیب لگتی ہے
قریب مجھ کو ہر خوشی لگتی ہے
منزل پر ہوں، پر منزل بعید لگتی ہے
جدھر دیکھتا ہوں تو ہی تو ہے
تیرا چہرہ میرے روبرو ہے
محسوس تو مجھے ہوا بھر پور ہے
جیسے مجھ میں صرف تو ہی موجود ہے
پھر دل کیوں میرا مچل رہا ہے
پیاسا جیسے کوئی مر رہا ہے
درد سے میرا دم گھٹ رہا ہے
کیا سمجھوں یہ کیا ماجرا ہے
تفحصِ اضطراب بڑھا تو مجھ پر عیاں ہوا
تھا منشائے حیات ہی غازہِ ناکامی لگائے ہوا
جو تو تھا میری آنکھوں میں ہر پل چمکتا ہوا
وہ تو نہیں محض تیرے وجود کا عکس ہوا Mohammad Danishwer
خاکہِ مستقبلِ روشن بنا کر
لطف زندگی مجھے چکھا کر
جینے کی وجہ مجھے بتلا کر
اندھیروں سے مجھے نکال کر
مینارِ روشن پر مجھے چڑھا کر
طبیعت کو میری جلا کر
خام سے مجھے کندن بنا کر
کیوں کچھ کمی باقی لگتی ہے
سب ہے، پر یہ ترقی عجیب لگتی ہے
قریب مجھ کو ہر خوشی لگتی ہے
منزل پر ہوں، پر منزل بعید لگتی ہے
جدھر دیکھتا ہوں تو ہی تو ہے
تیرا چہرہ میرے روبرو ہے
محسوس تو مجھے ہوا بھر پور ہے
جیسے مجھ میں صرف تو ہی موجود ہے
پھر دل کیوں میرا مچل رہا ہے
پیاسا جیسے کوئی مر رہا ہے
درد سے میرا دم گھٹ رہا ہے
کیا سمجھوں یہ کیا ماجرا ہے
تفحصِ اضطراب بڑھا تو مجھ پر عیاں ہوا
تھا منشائے حیات ہی غازہِ ناکامی لگائے ہوا
جو تو تھا میری آنکھوں میں ہر پل چمکتا ہوا
وہ تو نہیں محض تیرے وجود کا عکس ہوا Mohammad Danishwer
ڈر سورج کے ڈھلتے ہوئے اک انجان سے پہر
میں چلا جاتا ہوں میں اک شام پُر خطر
طویل راہ ہے، آتی نہیں کوئی شے نظر
سناٹا یہ لگتا کسی طوفان کی ہے خبر
ڈھونڈتی ہے نگاہ مری کہ مل جائے کوئی خضر
ہاتھ تھام لے اور لے جائے یوں مجھے بے ضرر
دل کے کسی کونے سے صدائے پریشان ہے مگر
سنبھالوں جو زادِ راہ تو جان کی لگتی ہے فکر
جس طوفان کا تھا ڈر وہ آ ہی گیا آ خر
لٹ گیا اسباب مرا اب جاؤں کس کے مندر
ظلمت کے اندھیرے میں کاٹ کوئی گیا میرے پر
جو خواب تھے سب ٹوٹ گئے کروں کیا بَین ان پر
شگفتہ پھول ہوں کانٹوں بھری دنیا سے ہے ڈر
مہنگی ہے خوشی یاں اور سستا سا ہے جبر
Mohammad Danishwer
میں چلا جاتا ہوں میں اک شام پُر خطر
طویل راہ ہے، آتی نہیں کوئی شے نظر
سناٹا یہ لگتا کسی طوفان کی ہے خبر
ڈھونڈتی ہے نگاہ مری کہ مل جائے کوئی خضر
ہاتھ تھام لے اور لے جائے یوں مجھے بے ضرر
دل کے کسی کونے سے صدائے پریشان ہے مگر
سنبھالوں جو زادِ راہ تو جان کی لگتی ہے فکر
جس طوفان کا تھا ڈر وہ آ ہی گیا آ خر
لٹ گیا اسباب مرا اب جاؤں کس کے مندر
ظلمت کے اندھیرے میں کاٹ کوئی گیا میرے پر
جو خواب تھے سب ٹوٹ گئے کروں کیا بَین ان پر
شگفتہ پھول ہوں کانٹوں بھری دنیا سے ہے ڈر
مہنگی ہے خوشی یاں اور سستا سا ہے جبر
Mohammad Danishwer