Add Poetry

Poetries by Mussawar Ali Baloch

قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں  کہیں پہ خون بکھرا ہے,کہیں بکھرے ہؤے اعضاء
کہیںپہ پھر دھماکہ ہے,وہاں لیٹے ہؤے لاشے
موت رقصاں ہر اک جانب,زندگی نوحہ کناں ہے
قیامت یہ نہی تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
تڑپتے بھوک سے بچے نوالے کو ترستے ہیں
مگر اشرافیہ ک گھر من و سلوئ اترتے ہیں
ظلم یہ کہ لب بستہ,سبھی آلام سہتے ہینں
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے کہتے ہیں
کہیں فاقہ کہیں غر بت,داؤ پہ لگ گئ عصمت
کہیں بکتے ہؤے بچے عوض کچھ دانہ پانی کے
یہاں خود سوزیاں ہر سو,بیروز گاریاں ہر سو
قیامت مت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
کہیں بے حس لوگوں نے بندوکیں تان رکھی ہیں
کسی معصوم شہری پر,کہ اب شناخت نامہ ہی
کرے گا فیصلہ یہ کہ,اسے مرنا کہ جینا ہے
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
اکہتر میں ہؤا تقسیم آدھا ملک یہ مانا
کہ سازش غیر کی تھی وھ,کہ اسکا دکھ جگہ اپنی
ہر اک کوچہ کراچی کا ہوا تقسیم در تقسیم
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
کہیں فرقہ پرستی ہے کہیں ذاتوں کا جھگڑا ہے
کہیں بھتے کا مسلہ ہے عجب باتوں کا جھگڑا ہے
زندگی بین کر تی ہے خرافاتوں کا جھگڑا ہے
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
سنو کہ روشنی کا شہر بہت تاریک ہے یارو
شہر کے با سیو سنو شہر کا قرض اترو
ظلم سہتے چلے جانا کوئ قدم نہ اٹھانا
Mussawar Ali Baloch
خود کلامی سوال یہ ہے کہ چاہتوں کا جو سلسلہ تھا
جنوں سے عاری کیوں ہو چلا ہے؟
جو وقت چاہت میں قیمتی تھا
وہ وقت بھاری کیوں ہو چلا ہے؟
کیوں؟ نامکمل خوشی ہے اب بھی؟
کہیں پہ جیسے کمی ہے اب بھی
بجھے بجھے سے یہ قہقہے ہیں
غموں میں لپٹی ہنسی ہے اب بھی
سنا ہے اکثر محبتوں جو ایک بدلے
تو دوسرا پھر کبھی نہ سنبھلے
یقیں کا دامن جو چھوٹ جائے
تو بے یقینی کے ہونگے حملے
سوال یہ ہے؟
سوال یہ ہے کہ یقیں کی عادت ہے کیسے چھوٹی؟
سوال یہ ہے یہ نگری چاہت کی کس نے لوٹی؟
سوال یہ ہے کہ کس نے اپنی ترجیحات بدلیں؟
سوال یہ ہے کہ اس میں کس کی ہے آس ٹوٹی؟
جواب یہ ہے
جواب یہ ہے کہ مادیت پرستی نے ہم کو ڈسا ہے ایسے
کہ پیار دل سے نکل گیا ہے
سٹیٹسوں کا جنوں ہے ہر سو
اعتبار دل سے نکل گیا ہے
جواب یہ ہے کہ ترقیوں میں جو سوچ بدلی
تو رشتے، ناطے بدل ہی جائیں
خیال میں" روشنی" جو امڈی
اصول سارے پھسل ہی جائیں
جواب یہ ہے، محبت تو اک سوچ ہے جو
بس خواب بن کے دلوں میں زندہ ہے
حقیقتوں میں تو مر چکی ہے
عذاب بن کے دلوں میں زندہ
سوال یہ ہے چاہتوں کے بنا بھی انساں انسان ہے کیا؟
جواب یہ ہے کہ مادی دنیا میں چاہتوں کا گمان ہے کیا؟
Mussawar Ali Baloch
آئینہ تاریخ بتاتی ہے
ہم حوصلے والے تھے ہاں دبدبے والے تھے
حالات یہ کہتے ہیں
بزدل ہوئے تو ہم ہیں کاہل ہوئے تو ہم ہیں
تاریخ بتاتی ہے
لی رہنمائی جب تک قرآن ہی سے ہم نے
کھائی نہ مات تب تک کسی اجنبی سے ہم نے
حالات یہ کہتے ہیں
قرآن وہ ہمارا طاقوں پہ سج رہا ہے
ہر کان میں نغمہ مغرب کا بج رہا ہے
تاریخ بتاتی ہے
اک حکمراں عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھا انصاف کا تھا داعی
رعایا کو خلیفہ تک آسان تھی رسائی
زیور سے لدی عورت جو گھر سے نکلتی تھی
بے خوف بے خطر منزل کو پہنچتی تھی
حالات یہ کہتے ہیں
چوروں کی حکومت ہے چوروں کا بسیرا ہے
مسلم ہی لٹ رہا ہے ، مسلم ہی لٹیرا ہے
تاریخ بتاتی ہے
رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نواسہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شیر خدا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیٹا مثال بن گیا تھا
ہاں دین ہی کے واسطے وہ ڈھال بن گیا تھا
سردی کے اس نے یارو ثابت ےہ کردیا تھا
ہو دین کو خطرہ تو سب کچھ ہی لٹادو تم باطل کو مٹادو تم
حالات یہ کہتے ہیں
ہر سو یہ دہائی ہے، بے دینگی چھائی ہے
سارے مسلماں اپنے مرکز سے ہٹ گئے ہیں
ٹکڑوں میں،بٹ گئے ہیں
نفرت کی آگ ہر سو غیروں نے لگائی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے
کہ کیسے ابن قاسم اک بہن کو بچانے کھینچتا چلا آیا تھا
دھرتی پہ اس داہر کو فرعون سے آمر کو
وہ درس پڑھایا تھا
کہ آج تلک ہندو اس کو نہ بھلا پایا
حالات یہ کہتے ہیں
عرصہ ہی ہوگیا ہے کشمیر جل رہا ہے
نہ جانے کتنی بہنیں
ناموس بھی لٹا کر
ہاں راہ تک رہی ہیں
قاسم کی، ایوبی کی، محمود غزنوی کی
قصہ یہ مختصر ہے
رونا تو عمر بھر ہے
حاکم ہو یا کہ تاجر
عالم ہو یا کہ سیید
کردار ان سبھی کا
تاریخ میں مقید
تاریخ چینحتی ہے لیکن خموش ہم ہیں
مغرب کی مستیوں میں
آہ ! مدہوش ہم ہیں
ایماںفروش ہم ہیں
ایماں فروش ہم ہیں
Mussawar Ali Baloch
Famous Poets
View More Poets