Poetries by Mussawar Ali Baloch
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں کہیں پہ خون بکھرا ہے,کہیں بکھرے ہؤے اعضاء
کہیںپہ پھر دھماکہ ہے,وہاں لیٹے ہؤے لاشے
موت رقصاں ہر اک جانب,زندگی نوحہ کناں ہے
قیامت یہ نہی تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
تڑپتے بھوک سے بچے نوالے کو ترستے ہیں
مگر اشرافیہ ک گھر من و سلوئ اترتے ہیں
ظلم یہ کہ لب بستہ,سبھی آلام سہتے ہینں
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے کہتے ہیں
کہیں فاقہ کہیں غر بت,داؤ پہ لگ گئ عصمت
کہیں بکتے ہؤے بچے عوض کچھ دانہ پانی کے
یہاں خود سوزیاں ہر سو,بیروز گاریاں ہر سو
قیامت مت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
کہیں بے حس لوگوں نے بندوکیں تان رکھی ہیں
کسی معصوم شہری پر,کہ اب شناخت نامہ ہی
کرے گا فیصلہ یہ کہ,اسے مرنا کہ جینا ہے
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
اکہتر میں ہؤا تقسیم آدھا ملک یہ مانا
کہ سازش غیر کی تھی وھ,کہ اسکا دکھ جگہ اپنی
ہر اک کوچہ کراچی کا ہوا تقسیم در تقسیم
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
کہیں فرقہ پرستی ہے کہیں ذاتوں کا جھگڑا ہے
کہیں بھتے کا مسلہ ہے عجب باتوں کا جھگڑا ہے
زندگی بین کر تی ہے خرافاتوں کا جھگڑا ہے
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
سنو کہ روشنی کا شہر بہت تاریک ہے یارو
شہر کے با سیو سنو شہر کا قرض اترو
ظلم سہتے چلے جانا کوئ قدم نہ اٹھانا Mussawar Ali Baloch
کہیںپہ پھر دھماکہ ہے,وہاں لیٹے ہؤے لاشے
موت رقصاں ہر اک جانب,زندگی نوحہ کناں ہے
قیامت یہ نہی تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
تڑپتے بھوک سے بچے نوالے کو ترستے ہیں
مگر اشرافیہ ک گھر من و سلوئ اترتے ہیں
ظلم یہ کہ لب بستہ,سبھی آلام سہتے ہینں
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے کہتے ہیں
کہیں فاقہ کہیں غر بت,داؤ پہ لگ گئ عصمت
کہیں بکتے ہؤے بچے عوض کچھ دانہ پانی کے
یہاں خود سوزیاں ہر سو,بیروز گاریاں ہر سو
قیامت مت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
کہیں بے حس لوگوں نے بندوکیں تان رکھی ہیں
کسی معصوم شہری پر,کہ اب شناخت نامہ ہی
کرے گا فیصلہ یہ کہ,اسے مرنا کہ جینا ہے
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
اکہتر میں ہؤا تقسیم آدھا ملک یہ مانا
کہ سازش غیر کی تھی وھ,کہ اسکا دکھ جگہ اپنی
ہر اک کوچہ کراچی کا ہوا تقسیم در تقسیم
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
کہیں فرقہ پرستی ہے کہیں ذاتوں کا جھگڑا ہے
کہیں بھتے کا مسلہ ہے عجب باتوں کا جھگڑا ہے
زندگی بین کر تی ہے خرافاتوں کا جھگڑا ہے
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
سنو کہ روشنی کا شہر بہت تاریک ہے یارو
شہر کے با سیو سنو شہر کا قرض اترو
ظلم سہتے چلے جانا کوئ قدم نہ اٹھانا Mussawar Ali Baloch
نیا سال ---- نیا ارادہ زندگی نام واقعات کا ہے
واقعہ موڑ زندگی کا بنے
کامیابی
اسی کی قسمت میں
زندگی کے ہر ایک موڑ سے جو
ملنے والے نئے سبق کو سدا
یاد رکھے اخیر عمر تلک
آﺅ اس سال اس پہ غور کریں
کون سی غلطیاں نہیں کرنی
اصول کون سے نبھانے ہیں
بھول کے زخم، جو پرانے ہیں
ہم نے نئے راستے بنانے ہیں
دیپ امید کے جلانے ہیں Mussawar Ali Baloch
واقعہ موڑ زندگی کا بنے
کامیابی
اسی کی قسمت میں
زندگی کے ہر ایک موڑ سے جو
ملنے والے نئے سبق کو سدا
یاد رکھے اخیر عمر تلک
آﺅ اس سال اس پہ غور کریں
کون سی غلطیاں نہیں کرنی
اصول کون سے نبھانے ہیں
بھول کے زخم، جو پرانے ہیں
ہم نے نئے راستے بنانے ہیں
دیپ امید کے جلانے ہیں Mussawar Ali Baloch
مگر نیند سے پہلے وہ میرا ہمسفر ہے، مگر نیند سے پہلے
اس کو میری خبر ہے، مگر نیند سے پہلے
تکلیف کا میری، میرے غم کا، میرے دکھ کا
شعور پہ اثر ہے، مگر نیند سے پہلے
سوجائیں ہم تو فکر ِجہاں پاس نہ آئے
بیزاریوں کا ڈر ہے، مگر نیند سے پہلے
حرکت ہے شوخیاں ہیں اور چہل پہل ہے
جیون کا اک ڈگر ہے، مگر نیند سے پہلے
دشمن کی سازشوں سے، دشمن کے وار سے
بچنے کا بھی ہنر ہے، مگر نیند سے پہلے
خوابوں میں ساتھ وہ میرے ہر پل ہے مصور
تنہائی کا سفر ہے، مگر نیند سے پہلے
Mussawar Ali Baloch
اس کو میری خبر ہے، مگر نیند سے پہلے
تکلیف کا میری، میرے غم کا، میرے دکھ کا
شعور پہ اثر ہے، مگر نیند سے پہلے
سوجائیں ہم تو فکر ِجہاں پاس نہ آئے
بیزاریوں کا ڈر ہے، مگر نیند سے پہلے
حرکت ہے شوخیاں ہیں اور چہل پہل ہے
جیون کا اک ڈگر ہے، مگر نیند سے پہلے
دشمن کی سازشوں سے، دشمن کے وار سے
بچنے کا بھی ہنر ہے، مگر نیند سے پہلے
خوابوں میں ساتھ وہ میرے ہر پل ہے مصور
تنہائی کا سفر ہے، مگر نیند سے پہلے
Mussawar Ali Baloch
خود کلامی سوال یہ ہے کہ چاہتوں کا جو سلسلہ تھا
جنوں سے عاری کیوں ہو چلا ہے؟
جو وقت چاہت میں قیمتی تھا
وہ وقت بھاری کیوں ہو چلا ہے؟
کیوں؟ نامکمل خوشی ہے اب بھی؟
کہیں پہ جیسے کمی ہے اب بھی
بجھے بجھے سے یہ قہقہے ہیں
غموں میں لپٹی ہنسی ہے اب بھی
سنا ہے اکثر محبتوں جو ایک بدلے
تو دوسرا پھر کبھی نہ سنبھلے
یقیں کا دامن جو چھوٹ جائے
تو بے یقینی کے ہونگے حملے
سوال یہ ہے؟
سوال یہ ہے کہ یقیں کی عادت ہے کیسے چھوٹی؟
سوال یہ ہے یہ نگری چاہت کی کس نے لوٹی؟
سوال یہ ہے کہ کس نے اپنی ترجیحات بدلیں؟
سوال یہ ہے کہ اس میں کس کی ہے آس ٹوٹی؟
جواب یہ ہے
جواب یہ ہے کہ مادیت پرستی نے ہم کو ڈسا ہے ایسے
کہ پیار دل سے نکل گیا ہے
سٹیٹسوں کا جنوں ہے ہر سو
اعتبار دل سے نکل گیا ہے
جواب یہ ہے کہ ترقیوں میں جو سوچ بدلی
تو رشتے، ناطے بدل ہی جائیں
خیال میں" روشنی" جو امڈی
اصول سارے پھسل ہی جائیں
جواب یہ ہے، محبت تو اک سوچ ہے جو
بس خواب بن کے دلوں میں زندہ ہے
حقیقتوں میں تو مر چکی ہے
عذاب بن کے دلوں میں زندہ
سوال یہ ہے چاہتوں کے بنا بھی انساں انسان ہے کیا؟
جواب یہ ہے کہ مادی دنیا میں چاہتوں کا گمان ہے کیا؟ Mussawar Ali Baloch
جنوں سے عاری کیوں ہو چلا ہے؟
جو وقت چاہت میں قیمتی تھا
وہ وقت بھاری کیوں ہو چلا ہے؟
کیوں؟ نامکمل خوشی ہے اب بھی؟
کہیں پہ جیسے کمی ہے اب بھی
بجھے بجھے سے یہ قہقہے ہیں
غموں میں لپٹی ہنسی ہے اب بھی
سنا ہے اکثر محبتوں جو ایک بدلے
تو دوسرا پھر کبھی نہ سنبھلے
یقیں کا دامن جو چھوٹ جائے
تو بے یقینی کے ہونگے حملے
سوال یہ ہے؟
سوال یہ ہے کہ یقیں کی عادت ہے کیسے چھوٹی؟
سوال یہ ہے یہ نگری چاہت کی کس نے لوٹی؟
سوال یہ ہے کہ کس نے اپنی ترجیحات بدلیں؟
سوال یہ ہے کہ اس میں کس کی ہے آس ٹوٹی؟
جواب یہ ہے
جواب یہ ہے کہ مادیت پرستی نے ہم کو ڈسا ہے ایسے
کہ پیار دل سے نکل گیا ہے
سٹیٹسوں کا جنوں ہے ہر سو
اعتبار دل سے نکل گیا ہے
جواب یہ ہے کہ ترقیوں میں جو سوچ بدلی
تو رشتے، ناطے بدل ہی جائیں
خیال میں" روشنی" جو امڈی
اصول سارے پھسل ہی جائیں
جواب یہ ہے، محبت تو اک سوچ ہے جو
بس خواب بن کے دلوں میں زندہ ہے
حقیقتوں میں تو مر چکی ہے
عذاب بن کے دلوں میں زندہ
سوال یہ ہے چاہتوں کے بنا بھی انساں انسان ہے کیا؟
جواب یہ ہے کہ مادی دنیا میں چاہتوں کا گمان ہے کیا؟ Mussawar Ali Baloch
میں تجھے کُو بہ کو قریہ بہ قریہ ڈھونڈوں اے میری سوچ کے محور مجھے تلاش کرو
میرے الفاظ کے اندر مجھے تلاش کرو
میں تیری روح کی تہوں میں چھپا بیٹھا ہوں
تم اپنی ذات میں کھو کر مجھے تلاش کرو
میرا انداز تکلم تمہارا مرہم ہے
لگے جو چوٹ اس دل پر مجھے تلاش کرو
کبھی جو آئینہ دیکھو تو مجھے پاﺅ گے
کہ اپنے روبہ رو رہ کر مجھے تلاش کرو
میں دوستی کے بطن میں وفا کا موتی ہوں
اگر ہے پیار سمندر، مجھے تلاش کرو
ٹھیک ہے خود کو سمجھنا بھی اچھی عادت ہے
کبھی تو ذات سے ہٹ کر، مجھے تلاش کرو
میں اس مفاد کے چکر کا تو حصہ ہی نہیں
تم اس حصار سے باہر مجھے تلاش کرو
میں تجھے کُو بہ کو قریہ بہ قریہ ڈھونڈوں
کبھی تو جان مصور مجھے تلاش کرو Mussawar Ali Baloch
میرے الفاظ کے اندر مجھے تلاش کرو
میں تیری روح کی تہوں میں چھپا بیٹھا ہوں
تم اپنی ذات میں کھو کر مجھے تلاش کرو
میرا انداز تکلم تمہارا مرہم ہے
لگے جو چوٹ اس دل پر مجھے تلاش کرو
کبھی جو آئینہ دیکھو تو مجھے پاﺅ گے
کہ اپنے روبہ رو رہ کر مجھے تلاش کرو
میں دوستی کے بطن میں وفا کا موتی ہوں
اگر ہے پیار سمندر، مجھے تلاش کرو
ٹھیک ہے خود کو سمجھنا بھی اچھی عادت ہے
کبھی تو ذات سے ہٹ کر، مجھے تلاش کرو
میں اس مفاد کے چکر کا تو حصہ ہی نہیں
تم اس حصار سے باہر مجھے تلاش کرو
میں تجھے کُو بہ کو قریہ بہ قریہ ڈھونڈوں
کبھی تو جان مصور مجھے تلاش کرو Mussawar Ali Baloch
جینے نہیں دیتا مجھے مرنے نہیں دیتا جینے نہیں دیتا مجھے مرنے نہیں دیتا
وہ شخص کوئی فیصلہ کرنے نہیں دیتا
خود کا خیال رکھنے کی عادت کہاں مجھے
میرا نصیب مجھکو سنورنے نہیں دیتا
حالات دائروں میں بھی رہنے نہیں دیتے
اور پیار مجھے حد سے گزرنے نہیں دیتا
یہ مخلصی میرے لیے سزا ہی بن گئی
اخلاص قول سے بھی مکرنے نہیں دیتا
وہ شخص درد ہے تو کبھی ہے دوا وہی
دل توڑتا بھی ہے تو بکھرنے دیتا
ساحل کی عافیت بھی مجھ سے چھیننا چاہے
دریائے غم میں بھی وہ اترنے نہیں دیتا
ملزم مجھے بھی یوں تو سمجھتا نہیں لیکن
الزام وقت پر بھی وہ دھرنے نہیں دیتا
وہ معاف کرنا جس کا وطیرہ تھا مصور
حالات کو اب وہ ہی سنورنے نہیں دیتا Mussawar Ali Baloch
وہ شخص کوئی فیصلہ کرنے نہیں دیتا
خود کا خیال رکھنے کی عادت کہاں مجھے
میرا نصیب مجھکو سنورنے نہیں دیتا
حالات دائروں میں بھی رہنے نہیں دیتے
اور پیار مجھے حد سے گزرنے نہیں دیتا
یہ مخلصی میرے لیے سزا ہی بن گئی
اخلاص قول سے بھی مکرنے نہیں دیتا
وہ شخص درد ہے تو کبھی ہے دوا وہی
دل توڑتا بھی ہے تو بکھرنے دیتا
ساحل کی عافیت بھی مجھ سے چھیننا چاہے
دریائے غم میں بھی وہ اترنے نہیں دیتا
ملزم مجھے بھی یوں تو سمجھتا نہیں لیکن
الزام وقت پر بھی وہ دھرنے نہیں دیتا
وہ معاف کرنا جس کا وطیرہ تھا مصور
حالات کو اب وہ ہی سنورنے نہیں دیتا Mussawar Ali Baloch
آئینہ تاریخ بتاتی ہے
ہم حوصلے والے تھے ہاں دبدبے والے تھے
حالات یہ کہتے ہیں
بزدل ہوئے تو ہم ہیں کاہل ہوئے تو ہم ہیں
تاریخ بتاتی ہے
لی رہنمائی جب تک قرآن ہی سے ہم نے
کھائی نہ مات تب تک کسی اجنبی سے ہم نے
حالات یہ کہتے ہیں
قرآن وہ ہمارا طاقوں پہ سج رہا ہے
ہر کان میں نغمہ مغرب کا بج رہا ہے
تاریخ بتاتی ہے
اک حکمراں عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھا انصاف کا تھا داعی
رعایا کو خلیفہ تک آسان تھی رسائی
زیور سے لدی عورت جو گھر سے نکلتی تھی
بے خوف بے خطر منزل کو پہنچتی تھی
حالات یہ کہتے ہیں
چوروں کی حکومت ہے چوروں کا بسیرا ہے
مسلم ہی لٹ رہا ہے ، مسلم ہی لٹیرا ہے
تاریخ بتاتی ہے
رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نواسہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شیر خدا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیٹا مثال بن گیا تھا
ہاں دین ہی کے واسطے وہ ڈھال بن گیا تھا
سردی کے اس نے یارو ثابت ےہ کردیا تھا
ہو دین کو خطرہ تو سب کچھ ہی لٹادو تم باطل کو مٹادو تم
حالات یہ کہتے ہیں
ہر سو یہ دہائی ہے، بے دینگی چھائی ہے
سارے مسلماں اپنے مرکز سے ہٹ گئے ہیں
ٹکڑوں میں،بٹ گئے ہیں
نفرت کی آگ ہر سو غیروں نے لگائی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے
کہ کیسے ابن قاسم اک بہن کو بچانے کھینچتا چلا آیا تھا
دھرتی پہ اس داہر کو فرعون سے آمر کو
وہ درس پڑھایا تھا
کہ آج تلک ہندو اس کو نہ بھلا پایا
حالات یہ کہتے ہیں
عرصہ ہی ہوگیا ہے کشمیر جل رہا ہے
نہ جانے کتنی بہنیں
ناموس بھی لٹا کر
ہاں راہ تک رہی ہیں
قاسم کی، ایوبی کی، محمود غزنوی کی
قصہ یہ مختصر ہے
رونا تو عمر بھر ہے
حاکم ہو یا کہ تاجر
عالم ہو یا کہ سیید
کردار ان سبھی کا
تاریخ میں مقید
تاریخ چینحتی ہے لیکن خموش ہم ہیں
مغرب کی مستیوں میں
آہ ! مدہوش ہم ہیں
ایماںفروش ہم ہیں
ایماں فروش ہم ہیں Mussawar Ali Baloch
ہم حوصلے والے تھے ہاں دبدبے والے تھے
حالات یہ کہتے ہیں
بزدل ہوئے تو ہم ہیں کاہل ہوئے تو ہم ہیں
تاریخ بتاتی ہے
لی رہنمائی جب تک قرآن ہی سے ہم نے
کھائی نہ مات تب تک کسی اجنبی سے ہم نے
حالات یہ کہتے ہیں
قرآن وہ ہمارا طاقوں پہ سج رہا ہے
ہر کان میں نغمہ مغرب کا بج رہا ہے
تاریخ بتاتی ہے
اک حکمراں عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھا انصاف کا تھا داعی
رعایا کو خلیفہ تک آسان تھی رسائی
زیور سے لدی عورت جو گھر سے نکلتی تھی
بے خوف بے خطر منزل کو پہنچتی تھی
حالات یہ کہتے ہیں
چوروں کی حکومت ہے چوروں کا بسیرا ہے
مسلم ہی لٹ رہا ہے ، مسلم ہی لٹیرا ہے
تاریخ بتاتی ہے
رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نواسہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شیر خدا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیٹا مثال بن گیا تھا
ہاں دین ہی کے واسطے وہ ڈھال بن گیا تھا
سردی کے اس نے یارو ثابت ےہ کردیا تھا
ہو دین کو خطرہ تو سب کچھ ہی لٹادو تم باطل کو مٹادو تم
حالات یہ کہتے ہیں
ہر سو یہ دہائی ہے، بے دینگی چھائی ہے
سارے مسلماں اپنے مرکز سے ہٹ گئے ہیں
ٹکڑوں میں،بٹ گئے ہیں
نفرت کی آگ ہر سو غیروں نے لگائی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے
کہ کیسے ابن قاسم اک بہن کو بچانے کھینچتا چلا آیا تھا
دھرتی پہ اس داہر کو فرعون سے آمر کو
وہ درس پڑھایا تھا
کہ آج تلک ہندو اس کو نہ بھلا پایا
حالات یہ کہتے ہیں
عرصہ ہی ہوگیا ہے کشمیر جل رہا ہے
نہ جانے کتنی بہنیں
ناموس بھی لٹا کر
ہاں راہ تک رہی ہیں
قاسم کی، ایوبی کی، محمود غزنوی کی
قصہ یہ مختصر ہے
رونا تو عمر بھر ہے
حاکم ہو یا کہ تاجر
عالم ہو یا کہ سیید
کردار ان سبھی کا
تاریخ میں مقید
تاریخ چینحتی ہے لیکن خموش ہم ہیں
مغرب کی مستیوں میں
آہ ! مدہوش ہم ہیں
ایماںفروش ہم ہیں
ایماں فروش ہم ہیں Mussawar Ali Baloch
مختصر نظمیں ایک بچے کا بین
(واقعہ کھوڑی گارڈن کراچی کے تناظر میں ستمبر2009)
مجھے قسم ہے کہ
کھانا کبھی نہ کھاﺅ گا
اے میری ماں
میں فاقوں سے نہ گھبراﺅں گا
بس تیری گود کی ٹھنڈک
مجھے میسر ہو
بھوک کی دھوپ کو
چھاﺅں اے ماں بناﺅنگا
یہ نوالہ جو تیری موت کے
عوض ہے ملا
تو بتا ! بھوک بھی ہو
کیسے نگل پاﺅں گا؟
نیند
کچھ راتوں کو تو ایسا ہو
میرے ذہن کے بہتے دریا پر
میرے دل کی کشتی چلتی ہے
پانی کے مخالف سمت اگر
کشتی کو بڑھاتا رہتا ہوں
تھک جاﺅں تو
سو جاتا ہوں
بے خوابی
عرصہ ہی ہوگیا ہے
پلکوں میں جدائی ہے
بے بسی
کھلونا تو دے سکا نہ
کیسے جہیز دونگا Mussawar Ali Baloch
(واقعہ کھوڑی گارڈن کراچی کے تناظر میں ستمبر2009)
مجھے قسم ہے کہ
کھانا کبھی نہ کھاﺅ گا
اے میری ماں
میں فاقوں سے نہ گھبراﺅں گا
بس تیری گود کی ٹھنڈک
مجھے میسر ہو
بھوک کی دھوپ کو
چھاﺅں اے ماں بناﺅنگا
یہ نوالہ جو تیری موت کے
عوض ہے ملا
تو بتا ! بھوک بھی ہو
کیسے نگل پاﺅں گا؟
نیند
کچھ راتوں کو تو ایسا ہو
میرے ذہن کے بہتے دریا پر
میرے دل کی کشتی چلتی ہے
پانی کے مخالف سمت اگر
کشتی کو بڑھاتا رہتا ہوں
تھک جاﺅں تو
سو جاتا ہوں
بے خوابی
عرصہ ہی ہوگیا ہے
پلکوں میں جدائی ہے
بے بسی
کھلونا تو دے سکا نہ
کیسے جہیز دونگا Mussawar Ali Baloch
میرے حوصلے جو میرا ساتھ دیں تو میرے حوصلے جو میرا ساتھ دیں تو
میں بنجر زمیں کو بھی زرخیز کردوں
میں کملائے گل کو بھی نوخیز کردوں
میں مغموم دل کو بھی ارمان دونگا
میں گمنام ہوں خود کو پہچان دونگا
اور
اپنی خودی کو بھی وہ شان دونگا
ستاروں کو جس پہ بڑا ناز ہوگا
مجھے چاہنا تیرا اعزاز ہوگا
میں سب کچھ کروں گا
فلک پہ سجوں گا
میرے حوصلے جو میرا ساتھ دیں تو Mussawar Ali Baloch
میں بنجر زمیں کو بھی زرخیز کردوں
میں کملائے گل کو بھی نوخیز کردوں
میں مغموم دل کو بھی ارمان دونگا
میں گمنام ہوں خود کو پہچان دونگا
اور
اپنی خودی کو بھی وہ شان دونگا
ستاروں کو جس پہ بڑا ناز ہوگا
مجھے چاہنا تیرا اعزاز ہوگا
میں سب کچھ کروں گا
فلک پہ سجوں گا
میرے حوصلے جو میرا ساتھ دیں تو Mussawar Ali Baloch