Poetries by Nadeem Murad
یہ محبت ہے تو پھر تجھ سے بہت ہے مجھ کو تم نے پوچھا ہے کہ "کیا مجھ کو ہے الفت تم سے؟ "
کیا خبر مجھ کو میری جان! کہ الفت کیا ہے
ہاں مگر جب بھی یونہی تیرا خیال آتا ہے
دل دھڑک اٹھتا ہے آنکھوں میں نمی آ جائے
اور تری یادوں میں رہتا ہوں میں پھر گم سم سا
تیرا احساس ہو آسودگئی قلب و نظر
تیری آواز ہو رس گھولتا سرگم جیسے
تیری تصویر منقش ہو مری آنکھوں میں
کیا یہ الفت ہے وہی جس کا ہے پوچھا تم نے
یہ محبت ہے تو پھر تجھ سے بہت ہے مجھ کو
ہے یہ گر عشق تو پھر میں بڑا سچا عاشق
یہ جنوں ہے تو میں پھر قیس کے مسلک
NADEEM MURAD
کیا خبر مجھ کو میری جان! کہ الفت کیا ہے
ہاں مگر جب بھی یونہی تیرا خیال آتا ہے
دل دھڑک اٹھتا ہے آنکھوں میں نمی آ جائے
اور تری یادوں میں رہتا ہوں میں پھر گم سم سا
تیرا احساس ہو آسودگئی قلب و نظر
تیری آواز ہو رس گھولتا سرگم جیسے
تیری تصویر منقش ہو مری آنکھوں میں
کیا یہ الفت ہے وہی جس کا ہے پوچھا تم نے
یہ محبت ہے تو پھر تجھ سے بہت ہے مجھ کو
ہے یہ گر عشق تو پھر میں بڑا سچا عاشق
یہ جنوں ہے تو میں پھر قیس کے مسلک
NADEEM MURAD
یہ جو آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے یہ جو آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے
عاشقی میں کوئی کمی سی ہے
میری تنہائیوں کا ذکر ہی کیا
میری محفل بھی ماتمی سی ہے
شعلہ زن تھے کبھی، وہی جذبے
برف کچھ ان پہ اب جمی سی ہے
ایک دھوکہ ہے زندگانی بھی
آگ سی ہے کہ شبنمی سی ہے
کہتے ہیں چھپ چھپا کے کرنی ہے
میری نیکی بھی مجرمی سی ہے
اس میں دکھ سکھ ہیں، جینا مرنا ہے
زندگی جیسے موسمی سی ہے
اُسکا لہجہ طلسمِ ہوش رُبا
اس پہ پوشاک ریشمی سی ہے
ٹھہرو ٹھہرو ابھی نہ پوچھے کوئی
بات تھوڑی ابھی جمی سی ہے
سمجھے تھے عشق ہی خطائیں کرے
وہ پری رُخ بھی آدمی سی ہے
کیا ہوا ہے ندیم کیوں چپ ہو
چشم کیوں تر ہے کیا غمی سی ہے
NADEEM MURAD
عاشقی میں کوئی کمی سی ہے
میری تنہائیوں کا ذکر ہی کیا
میری محفل بھی ماتمی سی ہے
شعلہ زن تھے کبھی، وہی جذبے
برف کچھ ان پہ اب جمی سی ہے
ایک دھوکہ ہے زندگانی بھی
آگ سی ہے کہ شبنمی سی ہے
کہتے ہیں چھپ چھپا کے کرنی ہے
میری نیکی بھی مجرمی سی ہے
اس میں دکھ سکھ ہیں، جینا مرنا ہے
زندگی جیسے موسمی سی ہے
اُسکا لہجہ طلسمِ ہوش رُبا
اس پہ پوشاک ریشمی سی ہے
ٹھہرو ٹھہرو ابھی نہ پوچھے کوئی
بات تھوڑی ابھی جمی سی ہے
سمجھے تھے عشق ہی خطائیں کرے
وہ پری رُخ بھی آدمی سی ہے
کیا ہوا ہے ندیم کیوں چپ ہو
چشم کیوں تر ہے کیا غمی سی ہے
NADEEM MURAD
آج فرصت ہے تو آنکھوں میں نمی آئی درد بھی دِکھتا ہے خوشبو بھی نظر آتی ہے
دل میں ہو جزبہ تو یہ مٹی بھی نغماتی ہے
مسکراتا ہے ہر اک غنچہ و گل، ہوں جو خفا
ہولے ہولے سے صبا بھی مجھے بہلاتی ہے
مل ہی جاتی ہے شہنشاہی بھی بیٹھے بیٹھے
کام دنیا کا ہر اک گرچہ مہمّاتی ہے
یاد رہتا نہیں غم ہائے غریب الوطنی
کُونج جب اڑتے ہوئے زور سے کُرلاتی ہے
یاد آتے ہیں مجھے دیس کے ساون بھادوں
بدلی پردیس کی تو آگ ہی برساتی ہے
زندگی سعئی مسلسل کا ہے اک دوسرا نام
نام میں رکھا ہے کیا، عمر تو ڈھل جاتی ہے
یہ لب و لہجہ، یہ اندازِبیاں اور یہ خیال
سچ کہوں! گر نہ برا مانو، روایاتی ہے
آج فرصت ہے توآنکھوں میں نمی آئی
کب طبیعت تری ہر روز ہی غزلاتی ہے
NADEEM MURAD
دل میں ہو جزبہ تو یہ مٹی بھی نغماتی ہے
مسکراتا ہے ہر اک غنچہ و گل، ہوں جو خفا
ہولے ہولے سے صبا بھی مجھے بہلاتی ہے
مل ہی جاتی ہے شہنشاہی بھی بیٹھے بیٹھے
کام دنیا کا ہر اک گرچہ مہمّاتی ہے
یاد رہتا نہیں غم ہائے غریب الوطنی
کُونج جب اڑتے ہوئے زور سے کُرلاتی ہے
یاد آتے ہیں مجھے دیس کے ساون بھادوں
بدلی پردیس کی تو آگ ہی برساتی ہے
زندگی سعئی مسلسل کا ہے اک دوسرا نام
نام میں رکھا ہے کیا، عمر تو ڈھل جاتی ہے
یہ لب و لہجہ، یہ اندازِبیاں اور یہ خیال
سچ کہوں! گر نہ برا مانو، روایاتی ہے
آج فرصت ہے توآنکھوں میں نمی آئی
کب طبیعت تری ہر روز ہی غزلاتی ہے
NADEEM MURAD
اے میرے ندیؔم چنچل تھی صبا
مہکی تھی فضا
رنگین تھے گل
تنہا تھی سزا
مخمور بدن
بیکل سا چلن
تھا ہجر کہ وصل
تھا کس کو پتا
دکھ بھی تھا خوشی
آنکھوں کی نمی
خوشیوں کا تھا غم
کیا عشق ہوا
بہکی بہکی
باتوں کی کمی
یہ روگ ہے یا
الفت کا نشہ
پھر کہنے لگا
مجھ کو میرا
اپنا سایا
کھویا کھویا
نم پیراہن
آنکھیں ساون
کیا ہجر کے غم
کا ہوں مارا
دوری اتنی
اچھی جتنی
تیرا چنری
سے جھلنا ہوا
لمحوں کا چلن
لگتا ہے قرن
اور جلتا نہیں
بن تیرے دیا
باقی ہے جو غم
اس میں نہیں دم
اے میرے ندیؔم
اب تو آجا NADEEM MURAD
مہکی تھی فضا
رنگین تھے گل
تنہا تھی سزا
مخمور بدن
بیکل سا چلن
تھا ہجر کہ وصل
تھا کس کو پتا
دکھ بھی تھا خوشی
آنکھوں کی نمی
خوشیوں کا تھا غم
کیا عشق ہوا
بہکی بہکی
باتوں کی کمی
یہ روگ ہے یا
الفت کا نشہ
پھر کہنے لگا
مجھ کو میرا
اپنا سایا
کھویا کھویا
نم پیراہن
آنکھیں ساون
کیا ہجر کے غم
کا ہوں مارا
دوری اتنی
اچھی جتنی
تیرا چنری
سے جھلنا ہوا
لمحوں کا چلن
لگتا ہے قرن
اور جلتا نہیں
بن تیرے دیا
باقی ہے جو غم
اس میں نہیں دم
اے میرے ندیؔم
اب تو آجا NADEEM MURAD
آزاد نظم (سانس لینے کے لئے) دور تھی منزل نہ جانے
کس قدر
اور سفر صحرا کا تھا
دھول اتنی تھی کہ راہوں کا پتا ملتا نہ تھا
ریگزارِ درد جس میں کوئی نخلستاں نہ تھا
اور تھوہر بھی تھے سب سوکھے ہوئے
پیر صدیوں کے سفر کی
کاوشوں کا بوجھ اوڑھے
چل رہے تھے
یا تھکا ماندہ بدن
اپنے پیروں کو گھسیٹے جارہا تھا
تھی ابھی کچھ دور منزل
پھنس گئے جب پیر
دھنستی ریت میں
گر گیا جب جسم تپتی ریت پر
میں نے آنکھیں موندھ لیں
جیسے مر جائے کوئی
اٹھ کے پھر چلنے کی خاطر
سانس لینے کے لئے
NADEEM MURAD
کس قدر
اور سفر صحرا کا تھا
دھول اتنی تھی کہ راہوں کا پتا ملتا نہ تھا
ریگزارِ درد جس میں کوئی نخلستاں نہ تھا
اور تھوہر بھی تھے سب سوکھے ہوئے
پیر صدیوں کے سفر کی
کاوشوں کا بوجھ اوڑھے
چل رہے تھے
یا تھکا ماندہ بدن
اپنے پیروں کو گھسیٹے جارہا تھا
تھی ابھی کچھ دور منزل
پھنس گئے جب پیر
دھنستی ریت میں
گر گیا جب جسم تپتی ریت پر
میں نے آنکھیں موندھ لیں
جیسے مر جائے کوئی
اٹھ کے پھر چلنے کی خاطر
سانس لینے کے لئے
NADEEM MURAD
وہ جو عاشق بھی ہے شاعر بھی ندیم زندگی پیار کا ارماں ہوگا
موت تو حاصلِ ساماں ہوگا
دیکھنے میں رخِ شاداں ہوگا
دل مگر شہرِ خموشاں ہوگا
حال کب یونہی پریشاں ہوگا
درد دل میں کوئی پنہاں ہوگا
چاہے ہنستے ہی کیا ہو رخصت
ایک آنسو سر ِ مژگاں ہوگا
یہ پھٹا کپڑا جو ہے چار گرہ
یہ تو عاشق کا گریباں ہوگا
لاکھ ہوں دشت و بیاباں رہ میں
اس کا گھر روضئہ رضواں ہوگا
تجھ سے ملنا ہے یہ ہے عزم مگر
لرزہ ء عمرِ گریزاں ہوگا
اس کا بچنا ہے بہت ہی مشکل
زخمیئ ناوکِ مژگاں ہوگا
وہ جو عاشق بھی ہے شاعر بھی ندیم
وہ غزلخواں شبِ ہجراں ہوگا
اس کو ڈھونڈو تو سہی آج ندیم
وہ چراغ ِ تہِ داماں ہوگا
NADEEM MURAD
موت تو حاصلِ ساماں ہوگا
دیکھنے میں رخِ شاداں ہوگا
دل مگر شہرِ خموشاں ہوگا
حال کب یونہی پریشاں ہوگا
درد دل میں کوئی پنہاں ہوگا
چاہے ہنستے ہی کیا ہو رخصت
ایک آنسو سر ِ مژگاں ہوگا
یہ پھٹا کپڑا جو ہے چار گرہ
یہ تو عاشق کا گریباں ہوگا
لاکھ ہوں دشت و بیاباں رہ میں
اس کا گھر روضئہ رضواں ہوگا
تجھ سے ملنا ہے یہ ہے عزم مگر
لرزہ ء عمرِ گریزاں ہوگا
اس کا بچنا ہے بہت ہی مشکل
زخمیئ ناوکِ مژگاں ہوگا
وہ جو عاشق بھی ہے شاعر بھی ندیم
وہ غزلخواں شبِ ہجراں ہوگا
اس کو ڈھونڈو تو سہی آج ندیم
وہ چراغ ِ تہِ داماں ہوگا
NADEEM MURAD
اک دل کی لگن، اک حسرتِ دید، اک تجھ سے نہ ملنے کا غم اک دل کی لگن، اک حسرتِ دید، اک تجھ سے نہ ملنے کا غم
سرسبز نہیں یہ نخلِ امید، اک تجھ سے نہ ملنے کا غم
گو رکھے مجھے یہ سب میں سعید اک تجھ سے نہ ملنے کا غم
کہتا ہے مگر کیا جینا مزید، اک تجھ سے نہ ملنے کا غم
میں چشم لگن، تو جلوہ فگن، پھر کاہے کی ہے اٹکن
بےچین ہے میری حبلِ ورید، اک تجھ سے نہ ملنے کا غم
یہ دیدہء تر، اور دردِ جگر، اب کیسے ہو رات بسر
تجھ ہی کو رکھے جب نقطہ ء دید اک تجھ سے نہ ملنے کا غم
اب ٹھہروں وہاں، ترا در ہو جہاں، اے مالکِ کون و مکاں
واقف ہے تو ہی، ہے کتنا شدید اک تجھ سے نہ ملنے کا غم
منگتا ہے ندیم، اور تو ہے کریم، اب پانا ہے فوز ِ عظیم
آنکھوں کو مری دیتا ہے نوید، اک تجھ سے نہ ملنے کا غم NADEEM MURAD
سرسبز نہیں یہ نخلِ امید، اک تجھ سے نہ ملنے کا غم
گو رکھے مجھے یہ سب میں سعید اک تجھ سے نہ ملنے کا غم
کہتا ہے مگر کیا جینا مزید، اک تجھ سے نہ ملنے کا غم
میں چشم لگن، تو جلوہ فگن، پھر کاہے کی ہے اٹکن
بےچین ہے میری حبلِ ورید، اک تجھ سے نہ ملنے کا غم
یہ دیدہء تر، اور دردِ جگر، اب کیسے ہو رات بسر
تجھ ہی کو رکھے جب نقطہ ء دید اک تجھ سے نہ ملنے کا غم
اب ٹھہروں وہاں، ترا در ہو جہاں، اے مالکِ کون و مکاں
واقف ہے تو ہی، ہے کتنا شدید اک تجھ سے نہ ملنے کا غم
منگتا ہے ندیم، اور تو ہے کریم، اب پانا ہے فوز ِ عظیم
آنکھوں کو مری دیتا ہے نوید، اک تجھ سے نہ ملنے کا غم NADEEM MURAD
کاش ندیم آجائے دوبارہ چھوٹی سی وہ شام ہجر میں دن تو خیر گزارا چھوٹی سی وہ شام
وقت تھا جیسے صدیاں ہارا چھوٹی سی وہ شام
چھوٹا سا وہ دن تھا ہمارا چھوٹی سیوہ شام
حاصل عمر اور دل کا سہارا چھوٹی سی وہ شام
عمر کی ساری خوشیاں اور غم بھیگی راتیں روشن دن
دل کی دعا لوٹ آئے خدارا چھوٹی سی وہ شام
ہجر و فراق اور وصل کے قصے فرصت کے تھے کام
یادوں کے آکاش کا تارا چھوٹی سی وہ شام
دھوپ اور دھوپ کی تیز تپش نے کالے کر دئیے روپ
یادوں میں جینے کا سہارا چھوٹی سی وہ شام
ساری اپنی قیمتی یادیں بھول گئے ہم یار
بھولوں کیسے ہجر کا مارا چھوٹی سی وہ شام
جیسے آگ کا کوئی شرار اور جیسے صبح کا تارا
یادوں میں چمکے جو ستارا چھوٹی سی وہ شام
کیسے بھولوں، بھول کے ساری دنیا کو جو پائی
ہم تھے اور تھا وہ چوبارہ چھوٹی سی وہ شام
کاٹے نہیں جو کٹتے دن اور رات وہ آئیں روز
کاش ندیم آجائے دوبارا چھوٹی سی وہ شام NADEEM MURAD
وقت تھا جیسے صدیاں ہارا چھوٹی سی وہ شام
چھوٹا سا وہ دن تھا ہمارا چھوٹی سیوہ شام
حاصل عمر اور دل کا سہارا چھوٹی سی وہ شام
عمر کی ساری خوشیاں اور غم بھیگی راتیں روشن دن
دل کی دعا لوٹ آئے خدارا چھوٹی سی وہ شام
ہجر و فراق اور وصل کے قصے فرصت کے تھے کام
یادوں کے آکاش کا تارا چھوٹی سی وہ شام
دھوپ اور دھوپ کی تیز تپش نے کالے کر دئیے روپ
یادوں میں جینے کا سہارا چھوٹی سی وہ شام
ساری اپنی قیمتی یادیں بھول گئے ہم یار
بھولوں کیسے ہجر کا مارا چھوٹی سی وہ شام
جیسے آگ کا کوئی شرار اور جیسے صبح کا تارا
یادوں میں چمکے جو ستارا چھوٹی سی وہ شام
کیسے بھولوں، بھول کے ساری دنیا کو جو پائی
ہم تھے اور تھا وہ چوبارہ چھوٹی سی وہ شام
کاٹے نہیں جو کٹتے دن اور رات وہ آئیں روز
کاش ندیم آجائے دوبارا چھوٹی سی وہ شام NADEEM MURAD
گیت (اپنے منگیتر کا پردیس سے آنے کا قصہ گیت کی شکل میں گاتے ہوئے) بہت دنوں کے بعد جو دیکھا اتنا سکوں اور اتنی خوشی
دکھ اور درد کی کیا اوقات میں آنکھ جھپکنا بھول گئی
سوچا تھا وہ آئے گا تو لگ کے گلے میں روؤں گی
سکتا ہو گیا مجھ پہ طاری میں تو بلکنا بھول گئی
جیسے چھوٹے بچے اپنی ماں کے لئے رو پڑتے ہیں
ہائے وصل کی بیتابی میں تو رو پڑنا بھول گئی
اس کے پیار نے اتنی طاقت میری رگوں میں بھر دی تھی
میں تو سماج کے ظالم ہتھکنڈوں سے ڈرنا بھول گئی
اس کے پیار سے بڑھ گئی میری شرم و حیا کچھ اور سکھی
بس اظہار تھا کرنا چاہا کیسے جھجھکنا بھول گئی
اس کی آمد نے دنیا کی ہر اک شئے میں رنگ بھرے
میں تو میں ہوں بام پہ بیٹھی چڑیا پُھدکنا بھول گئی
دیکھ کے اس کو بہکی بہکی باتیں میں بھی کرنے لگی
عقل و خرد کے سارے سبق جو یاد تھے کرنا بھول گئی
سوچا تھا کھولوں گی دفتر شکوے شکایت کے سارے
آنکھوں نے وہ دریا بہائے میں تو بھڑکنا بھول گئی
آنکھوں سے آنسو تھے جاری اور وہ بہلاتا ہی رہا
اتنا خوش تھی اتنا خوش تھی کہ میں بہلنا بھول گئی
اس نے چنریا میری پکڑی اور پکڑ کر چھوڑ بھی دی
بس اس ایک ادا پر میں تو بننا سنورنا بھول گئی
سوچا تھا میں کہہ دوں گی کب میں نے تم سے پیار کیا
جیسے اس کی صورت دیکھی میں تو مکرنا بھول گئی
اس کے ملنے کی خوشیوں میں یاد نہیں اب کوئی دکھ
اس کی جدائی کی لمبی راتوں میں تڑپنا بھول گئی
بہت دنوں کے بعد جو دیکھا اتنا سکوں اور اتنی خوشی
دکھ اور درد کی کیا اوقات میں آنکھ جھپکنا بھول گئی NADEEM MURAD
دکھ اور درد کی کیا اوقات میں آنکھ جھپکنا بھول گئی
سوچا تھا وہ آئے گا تو لگ کے گلے میں روؤں گی
سکتا ہو گیا مجھ پہ طاری میں تو بلکنا بھول گئی
جیسے چھوٹے بچے اپنی ماں کے لئے رو پڑتے ہیں
ہائے وصل کی بیتابی میں تو رو پڑنا بھول گئی
اس کے پیار نے اتنی طاقت میری رگوں میں بھر دی تھی
میں تو سماج کے ظالم ہتھکنڈوں سے ڈرنا بھول گئی
اس کے پیار سے بڑھ گئی میری شرم و حیا کچھ اور سکھی
بس اظہار تھا کرنا چاہا کیسے جھجھکنا بھول گئی
اس کی آمد نے دنیا کی ہر اک شئے میں رنگ بھرے
میں تو میں ہوں بام پہ بیٹھی چڑیا پُھدکنا بھول گئی
دیکھ کے اس کو بہکی بہکی باتیں میں بھی کرنے لگی
عقل و خرد کے سارے سبق جو یاد تھے کرنا بھول گئی
سوچا تھا کھولوں گی دفتر شکوے شکایت کے سارے
آنکھوں نے وہ دریا بہائے میں تو بھڑکنا بھول گئی
آنکھوں سے آنسو تھے جاری اور وہ بہلاتا ہی رہا
اتنا خوش تھی اتنا خوش تھی کہ میں بہلنا بھول گئی
اس نے چنریا میری پکڑی اور پکڑ کر چھوڑ بھی دی
بس اس ایک ادا پر میں تو بننا سنورنا بھول گئی
سوچا تھا میں کہہ دوں گی کب میں نے تم سے پیار کیا
جیسے اس کی صورت دیکھی میں تو مکرنا بھول گئی
اس کے ملنے کی خوشیوں میں یاد نہیں اب کوئی دکھ
اس کی جدائی کی لمبی راتوں میں تڑپنا بھول گئی
بہت دنوں کے بعد جو دیکھا اتنا سکوں اور اتنی خوشی
دکھ اور درد کی کیا اوقات میں آنکھ جھپکنا بھول گئی NADEEM MURAD
پر بُھلایا نہ گیا، عشق تھا پہلا پہلا عکس پانی میں جو دیکھا تو ہے گدلا گدلا
چاند کھڑکی سے نظر آتا ہے بدلا بدلا
بھول جاتے ہیں سبھی لوگ ہی پچھلا پچھلا
بس تگ و دو ہے سنور جائے کچھ اگلا اگلا
ایک پوشیدہ خزانہ تھا پسِ چلمن تھا
ایک دن دیکھ لیا، تھا بہت اجلا اجلا
دور اپنوں سے ہوا ہو گیا ٹکڑے ٹکڑے
پھر زمانوں میں کہیں دل مرا بہلا بہلا
اک نظر ہی نے ہلا دی تھی زمیں پیروں تلے
لڑکھڑاتے ہوئے پھر دل مرا سنبھلا سنبھلا
لاکھ چاہا کہ بھلا دوں وہ زمانہ ہی ندیم
پر بھلایا نہ گیا عشق تھا پہلا پہلا NADEEM MURAD
چاند کھڑکی سے نظر آتا ہے بدلا بدلا
بھول جاتے ہیں سبھی لوگ ہی پچھلا پچھلا
بس تگ و دو ہے سنور جائے کچھ اگلا اگلا
ایک پوشیدہ خزانہ تھا پسِ چلمن تھا
ایک دن دیکھ لیا، تھا بہت اجلا اجلا
دور اپنوں سے ہوا ہو گیا ٹکڑے ٹکڑے
پھر زمانوں میں کہیں دل مرا بہلا بہلا
اک نظر ہی نے ہلا دی تھی زمیں پیروں تلے
لڑکھڑاتے ہوئے پھر دل مرا سنبھلا سنبھلا
لاکھ چاہا کہ بھلا دوں وہ زمانہ ہی ندیم
پر بھلایا نہ گیا عشق تھا پہلا پہلا NADEEM MURAD
روپ زہرا کی المناک موت پر پیاری سی اک بیٹی تھی
نام تھا زہرا روپ
کھوگیا ہم سے وہ رشتہ
تھا جو سنہرا روپ
کیونکر اتنا پیار دیا
تھی وہ انوکھی روپ
کیسے ہنسی اب آئے گی
یاد یں اس کی روپ
تلخ بہت ہے دنیا کی
جلتی بلتی دھوپ
اس میں کیسے رہ پاتی
نازک میری روپ
چند ملے دن دنیا کے
بخت کا مارا روپ
نظروں سے اب اوجھل ہے
آنکھ کا تارا روپ
کیسے بھول اب پائیں گے
جان سے پیارا روپ
روتا ہم کو رکھے گا
وہ دکھیارا روپ
١٦ نومبر ٢٠١٤ ندیم مراد
نام تھا زہرا روپ
کھوگیا ہم سے وہ رشتہ
تھا جو سنہرا روپ
کیونکر اتنا پیار دیا
تھی وہ انوکھی روپ
کیسے ہنسی اب آئے گی
یاد یں اس کی روپ
تلخ بہت ہے دنیا کی
جلتی بلتی دھوپ
اس میں کیسے رہ پاتی
نازک میری روپ
چند ملے دن دنیا کے
بخت کا مارا روپ
نظروں سے اب اوجھل ہے
آنکھ کا تارا روپ
کیسے بھول اب پائیں گے
جان سے پیارا روپ
روتا ہم کو رکھے گا
وہ دکھیارا روپ
١٦ نومبر ٢٠١٤ ندیم مراد
ڈربن کے نارتھ بیچ پر آؤ کے ملکے سمندر کی اچھلتی ہوئی لہروں میں کہیں گم ہوکر
کچھ نئے اور جہاں ڈھونڈ نکالیں کے جہاں درد نہ ہوں
ظلم و بربریت و ناانصافی
قتل ، مقتول نہ قاتل نہ کوئی تختہ ءدار
بیڑیاں اور نہ غلام
قید و بند اور نہ قفس
اور نہ نفرت بھری چبھتی نظریں
کھال کے رنگ کی بنیاد پہ تقسیم کی بات
مزہب و ڈھنگ کی بنیاد پہ تقسیم کی بات
اونچے محلات وشکستہ جھگیاں، طبقاط
اور خود ساختہ فرسودہ نظاموں پہ مسلسل اصرار
جنگ کی آگ میں جھلسے ہوئے انسانی بدن
خون کے جلنے بو
ہائے انسان کا انسان کی جاں لینے کا شوق
وائے تہزیب نوی جس میں شکار اور شکاری انساں
اور ٹوٹی ہوئی چوڑیاں اجڑی مانگیں روتے بچے
کوئی پھندہ کوئی طوق
فاصلے، دوریاں ،غربت، افلاس
اور نہ ہو ہجر و فراق
قصہ کوتاہ کوئی کرب نہ ہو درد نہ ہو
ہےیہ ممکن کہ نہیں
کہ سمندر کی اچھلتی ہوئی لہروں میں کہیں
ہم کوئی ایسا جہاں ڈھونڈ ہی لیں
ہاں اگر ڈھونڈ ہی لیں
ان کو دکھلائیں گے لیکن اکیسے
جو سمندر کی اچھلتی ہوئی لہروں میں اترنے کو نہیں ہیں تیار
N A D E E M M U R A D
کچھ نئے اور جہاں ڈھونڈ نکالیں کے جہاں درد نہ ہوں
ظلم و بربریت و ناانصافی
قتل ، مقتول نہ قاتل نہ کوئی تختہ ءدار
بیڑیاں اور نہ غلام
قید و بند اور نہ قفس
اور نہ نفرت بھری چبھتی نظریں
کھال کے رنگ کی بنیاد پہ تقسیم کی بات
مزہب و ڈھنگ کی بنیاد پہ تقسیم کی بات
اونچے محلات وشکستہ جھگیاں، طبقاط
اور خود ساختہ فرسودہ نظاموں پہ مسلسل اصرار
جنگ کی آگ میں جھلسے ہوئے انسانی بدن
خون کے جلنے بو
ہائے انسان کا انسان کی جاں لینے کا شوق
وائے تہزیب نوی جس میں شکار اور شکاری انساں
اور ٹوٹی ہوئی چوڑیاں اجڑی مانگیں روتے بچے
کوئی پھندہ کوئی طوق
فاصلے، دوریاں ،غربت، افلاس
اور نہ ہو ہجر و فراق
قصہ کوتاہ کوئی کرب نہ ہو درد نہ ہو
ہےیہ ممکن کہ نہیں
کہ سمندر کی اچھلتی ہوئی لہروں میں کہیں
ہم کوئی ایسا جہاں ڈھونڈ ہی لیں
ہاں اگر ڈھونڈ ہی لیں
ان کو دکھلائیں گے لیکن اکیسے
جو سمندر کی اچھلتی ہوئی لہروں میں اترنے کو نہیں ہیں تیار
N A D E E M M U R A D
وصل کافی نہیں ہے ندیم ، اب جی لگانے کو جی چاہتا ہے
غم بھلانے کو جی چاہتا ہے
کچھ کمانے کو جی چاہتا ہے
کچھ گنوانے کو جی چاہتا ہے
نقش کاغز پہ کھینچے بہت سے
اب مٹانے کو جی چاہتا ہے
پھر سے لکھنا ہے خط ایک ان کو
جی جلانے کو جی چاہتا ہے
نا سمجھ تھے رلاڈالا ان کو
اب ہنسانے کو جی چاہتا ہے
نقرئی قہقہوں کی دُھنیں ہوں
ایسے گانے کو جی چاہتا ہے
کیا ہے پہلو میں بیٹھے ہی رہیئے
آنے جانے کو جی چاہتا ہے
زخمِ دل ہم نے برسوں چھپائے
اب سجانے کو جی چاہتا ہے
اب بہار آنا ممکن نہیں ہے
گل لگانے کو جی چاہتا ہے
میں نے دیکھے ہیں جتنے بھی سپنے
وہ دکھانے کو جی چاہتا ہے
جتنی غزلیں بھی میں نے کہی ہیں
سب سنانے کو جی چاہتا ہے
بھر دئے ہم نے لکھ لکھ کے دفتر
اب جلانے کو جی چاہتا ہے
تھک گئے ہیں مسافت سے لمبی
لوٹ آنے کو جی چاہتا ہے
سچ ہوں سب میرے سپنے سہانے
جاگ جانے کو جی چاہتا ہے
اب تو گھبرا کے آلام و غم سے
حشراٹھانےکو جی چاہتا ہے
جس میں سب مل گئےتھے بلآخر
اُس فسانےکو جی چاہتا ہے
ہم غریب الوطن ، کیوں ہمارا
آشیانے کو جی چاہتا ہے
کود کر اب بلندی سے، تقدیر
آزمانے کو جی چاہتا ہے
کھول کر رکھ دیا تھا دل آگے
اب چھپانے کو جی چاہتا ہے
وصل کافی نہیں ہے ندؔیم ،اب
گھر بسانے کو جی چاہتا ہے
ندیم مراد N A D E E M M U R A D
غم بھلانے کو جی چاہتا ہے
کچھ کمانے کو جی چاہتا ہے
کچھ گنوانے کو جی چاہتا ہے
نقش کاغز پہ کھینچے بہت سے
اب مٹانے کو جی چاہتا ہے
پھر سے لکھنا ہے خط ایک ان کو
جی جلانے کو جی چاہتا ہے
نا سمجھ تھے رلاڈالا ان کو
اب ہنسانے کو جی چاہتا ہے
نقرئی قہقہوں کی دُھنیں ہوں
ایسے گانے کو جی چاہتا ہے
کیا ہے پہلو میں بیٹھے ہی رہیئے
آنے جانے کو جی چاہتا ہے
زخمِ دل ہم نے برسوں چھپائے
اب سجانے کو جی چاہتا ہے
اب بہار آنا ممکن نہیں ہے
گل لگانے کو جی چاہتا ہے
میں نے دیکھے ہیں جتنے بھی سپنے
وہ دکھانے کو جی چاہتا ہے
جتنی غزلیں بھی میں نے کہی ہیں
سب سنانے کو جی چاہتا ہے
بھر دئے ہم نے لکھ لکھ کے دفتر
اب جلانے کو جی چاہتا ہے
تھک گئے ہیں مسافت سے لمبی
لوٹ آنے کو جی چاہتا ہے
سچ ہوں سب میرے سپنے سہانے
جاگ جانے کو جی چاہتا ہے
اب تو گھبرا کے آلام و غم سے
حشراٹھانےکو جی چاہتا ہے
جس میں سب مل گئےتھے بلآخر
اُس فسانےکو جی چاہتا ہے
ہم غریب الوطن ، کیوں ہمارا
آشیانے کو جی چاہتا ہے
کود کر اب بلندی سے، تقدیر
آزمانے کو جی چاہتا ہے
کھول کر رکھ دیا تھا دل آگے
اب چھپانے کو جی چاہتا ہے
وصل کافی نہیں ہے ندؔیم ،اب
گھر بسانے کو جی چاہتا ہے
ندیم مراد N A D E E M M U R A D
آگہی کی جستجو زندگی فصلِ بہاراں ہے تو میں دانا کہ خول
زندگی اسٹیج تو کردار ہوں میں یا کہ بول
زندگی سیل تجارت ہے تو میں تاجر کہ مال
زندگی گہرا سمندر ہے تو میں ماہی کہ جال
زندگی ہے عشق تو ہوں ہجر کہ بوس و کنار
زندگی ہے گلستاں تو پھول ہوں میں یا کہ خار
زندگی مایا تو پھر داتا کہ میں کشکول ہوں
زندگی کنواں تو میں پانی کہ اسکا ڈول ہوں
الغرض! ہوں جب سے، خود کو ڈھونڈتا ہوں کُو بہ کُو
عمر بھر کی ہے مسافت آگہی کی جستجو ندیم مراد
زندگی اسٹیج تو کردار ہوں میں یا کہ بول
زندگی سیل تجارت ہے تو میں تاجر کہ مال
زندگی گہرا سمندر ہے تو میں ماہی کہ جال
زندگی ہے عشق تو ہوں ہجر کہ بوس و کنار
زندگی ہے گلستاں تو پھول ہوں میں یا کہ خار
زندگی مایا تو پھر داتا کہ میں کشکول ہوں
زندگی کنواں تو میں پانی کہ اسکا ڈول ہوں
الغرض! ہوں جب سے، خود کو ڈھونڈتا ہوں کُو بہ کُو
عمر بھر کی ہے مسافت آگہی کی جستجو ندیم مراد
جھوٹ کا دفتر (نظم) لفظ اک دوجے کی جھولی پکڑے
یوں چلے آتے ہیں
جیسے زنجیر کوئی
کر کے ان لفظوں کو آگے پیچھے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
میرے اطراف میں جو ہوتا ہے
اور جو میں دیکھتا ہوں
اس میں کچھ ردو بدل کرتے ہوئے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
جب کبھی کوئی خوشی ملتی ہے
یا کسی اور کو خوش دیکھتا ہوں
گنگناتے ہوئے کچھ
زعفراں زار ہنسی صفحہ ء قرطاس پہ لاتے لاتے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
یا کبھی بھولی ہوئی یاد کوئی
دل کو تڑپاتی ہے
چھپ کے تنہائی میں روتے روتے
اور لفظوں میں بدلتے ہوئے آنسو اپنے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
یا کبھی چوٹ کوئی کھاتا ہے دل
اور لگتا ہے کہ سینے میں ہو گہرا کوئی زخم
اور اس زخم سے رس رس کے لہو بہتا ہو
دل کے نوحے کےوہ ٹوٹے ہوئے دو اک الفاظ
ریت پر انگلی سے لکھتے لکھتے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
فلسفے جتنے پڑھے ہیں میں نے
اپنے جزبات کو پرکھوں ان سے
جب نئی بات سجھائی دے کوئی
اس کو ترتیب میں لاتے لاتے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
یا کبھی حسن کوئی آنکھوں کو بھا جاتا ہے
اور پلکوں کو جھپکنا بھی نہیں رہتا یاد
ہاتھ کردیتے ہیں خود انگلیاں زخمی اپنی
سانسیں خود گاتی ہیں نغمات ِ نشیب اور فراز
اور ان نغموں کو لفظوں کی زباں دیتے ہوئے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
ہر زمانے کے الگ ہیں اطوار
ہر زمانے کی نئی ہیں سوچیں
جب مرے دل پہ گزرتی ہے کچھ
اور کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے
اپنے اس دورکو ملحوظِ نظر رکھتے ہوئے
اپنے انداز سے کہتے کہتے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
یا کہیں ظلم کبھی ہوتا ہوا دیکھتا ہوں
حکمرانوں سے چھپائے نہیں جب چھپتے ہزار
آستینوں پہ لہو کے دھبے
جی یہ کہتا ہے کہ خاموش رہوں
اور دھڑکتا ہوا دل، ٹوٹی ہوئی انگلیاں، بوجھل پلکیں
کچھ نہیں کہتی مگر
کنج ِ تنہائی میں خامے کی سسکتی صر صر
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
اور کبھی کچھ بھی نہیں ہوتا سچ
لفظ کوئی بھی زباں پر نہیں چڑھنے پاتا
تیرگی ہوتی ہے اطراف مرے
اور نہ دکھتی ہے حسینہ کوئی
کوئی دکھ ،کوئی خوشی ، کوئی یاد
اور ہوتا نہیں کوئی جزبہ
اور کچھ دل پہ گزرتا بھی نہیں
اور کانوں تلک آتی نہیں مظلوم کے رونے کی صدا
آہ و بقا
کھول کر جھوٹ کا دفتر میں وہ پُل باندھتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں ندیم مراد N A D E E M M U R A D
یوں چلے آتے ہیں
جیسے زنجیر کوئی
کر کے ان لفظوں کو آگے پیچھے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
میرے اطراف میں جو ہوتا ہے
اور جو میں دیکھتا ہوں
اس میں کچھ ردو بدل کرتے ہوئے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
جب کبھی کوئی خوشی ملتی ہے
یا کسی اور کو خوش دیکھتا ہوں
گنگناتے ہوئے کچھ
زعفراں زار ہنسی صفحہ ء قرطاس پہ لاتے لاتے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
یا کبھی بھولی ہوئی یاد کوئی
دل کو تڑپاتی ہے
چھپ کے تنہائی میں روتے روتے
اور لفظوں میں بدلتے ہوئے آنسو اپنے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
یا کبھی چوٹ کوئی کھاتا ہے دل
اور لگتا ہے کہ سینے میں ہو گہرا کوئی زخم
اور اس زخم سے رس رس کے لہو بہتا ہو
دل کے نوحے کےوہ ٹوٹے ہوئے دو اک الفاظ
ریت پر انگلی سے لکھتے لکھتے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
فلسفے جتنے پڑھے ہیں میں نے
اپنے جزبات کو پرکھوں ان سے
جب نئی بات سجھائی دے کوئی
اس کو ترتیب میں لاتے لاتے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
یا کبھی حسن کوئی آنکھوں کو بھا جاتا ہے
اور پلکوں کو جھپکنا بھی نہیں رہتا یاد
ہاتھ کردیتے ہیں خود انگلیاں زخمی اپنی
سانسیں خود گاتی ہیں نغمات ِ نشیب اور فراز
اور ان نغموں کو لفظوں کی زباں دیتے ہوئے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
ہر زمانے کے الگ ہیں اطوار
ہر زمانے کی نئی ہیں سوچیں
جب مرے دل پہ گزرتی ہے کچھ
اور کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے
اپنے اس دورکو ملحوظِ نظر رکھتے ہوئے
اپنے انداز سے کہتے کہتے
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
یا کہیں ظلم کبھی ہوتا ہوا دیکھتا ہوں
حکمرانوں سے چھپائے نہیں جب چھپتے ہزار
آستینوں پہ لہو کے دھبے
جی یہ کہتا ہے کہ خاموش رہوں
اور دھڑکتا ہوا دل، ٹوٹی ہوئی انگلیاں، بوجھل پلکیں
کچھ نہیں کہتی مگر
کنج ِ تنہائی میں خامے کی سسکتی صر صر
چند مصرعے جو بنا لیتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں
٭٭٭
اور کبھی کچھ بھی نہیں ہوتا سچ
لفظ کوئی بھی زباں پر نہیں چڑھنے پاتا
تیرگی ہوتی ہے اطراف مرے
اور نہ دکھتی ہے حسینہ کوئی
کوئی دکھ ،کوئی خوشی ، کوئی یاد
اور ہوتا نہیں کوئی جزبہ
اور کچھ دل پہ گزرتا بھی نہیں
اور کانوں تلک آتی نہیں مظلوم کے رونے کی صدا
آہ و بقا
کھول کر جھوٹ کا دفتر میں وہ پُل باندھتا ہوں
سب سمجھتے ہیں کہ میں شاعر ہوں ندیم مراد N A D E E M M U R A D
اعتزار (نظم) تھا ترا مہکا بدن
اور پھر دہکا بدن
اُس پہ تیری قربتیں
سو مرا بہکا بدن
ندیم مراد N A D E E M M U R A D
اور پھر دہکا بدن
اُس پہ تیری قربتیں
سو مرا بہکا بدن
ندیم مراد N A D E E M M U R A D
شہر کی بلبلیں روتے ہوئے کہتی ہیں ندیم (کراچی پر) شہر کو گھیر لے تاریکی سرِشام اب کے
شہر کا نام تو بس رہ گیا ہے نام اب کے
اپنے ہی گھر میں سکوں ملنا ہے دشوار بہت
جنگلوں میں ہی چلو کرنے کو آرام اب کے
میں نے جنگل جو کہا شہر کو ، جگنو بولا
تھا فقط میرا ہی گھر ، کرنے کو بدنام اب کے
ایک کیاری پہ بھٹکتی ہوئی تتلی دیکھی
کہتی تھی شہر کے گل تو ہیں ، خوں آشام اب کے
کھیلتے کودتے جن گلیوں میں ہوتے ہیں جواں
ان جوانوں کے ہیں خوں رنگ درو بام اب کے
انّا لِلّلہ جو ہوئے لقمہ ء دہشت گردی
چلتے پھرتے بھی تو بے روح سے اجسام اب کے
فاختاؤں سے جو پوچھا تو وہ یوں گویا ہوئیں
امن کی آشا لگےآرزوئے خام اب کے
باندھ کر سر سے کفن گھر سے نکلیئے ہر روز
یا تو پھر چل ہی پڑیں اوڑھ کے احرام اب کے
شہر کی بُلبلیں روتے ہوئے کہتی ہیں ندیم
گیت کیا گائیں بسیروں پہ ہے کہرام اب کے ندیم مراد N A D E E M M U R A D
شہر کا نام تو بس رہ گیا ہے نام اب کے
اپنے ہی گھر میں سکوں ملنا ہے دشوار بہت
جنگلوں میں ہی چلو کرنے کو آرام اب کے
میں نے جنگل جو کہا شہر کو ، جگنو بولا
تھا فقط میرا ہی گھر ، کرنے کو بدنام اب کے
ایک کیاری پہ بھٹکتی ہوئی تتلی دیکھی
کہتی تھی شہر کے گل تو ہیں ، خوں آشام اب کے
کھیلتے کودتے جن گلیوں میں ہوتے ہیں جواں
ان جوانوں کے ہیں خوں رنگ درو بام اب کے
انّا لِلّلہ جو ہوئے لقمہ ء دہشت گردی
چلتے پھرتے بھی تو بے روح سے اجسام اب کے
فاختاؤں سے جو پوچھا تو وہ یوں گویا ہوئیں
امن کی آشا لگےآرزوئے خام اب کے
باندھ کر سر سے کفن گھر سے نکلیئے ہر روز
یا تو پھر چل ہی پڑیں اوڑھ کے احرام اب کے
شہر کی بُلبلیں روتے ہوئے کہتی ہیں ندیم
گیت کیا گائیں بسیروں پہ ہے کہرام اب کے ندیم مراد N A D E E M M U R A D
کراچی کے حالات پر ۔۔۔۔۔۔ شہر کو گھیر لے تاریکی سرِشام اب کے
شہر کا نام تو بس رہ گیا ہے نام اب کے
اپنے ہی گھر میں سکوں ملنا ہے دشوار بہت
جنگلوں میں ہی چلو کرنے کو آرام اب کے
میں نے جنگل جو کہا شہر کو ، جگنو بولا
تھا فقط میرا ہی گھر ، کرنے کو بدنام اب کے
ایک کیاری پہ بھٹکتی ہوئی تتلی دیکھی
کہتی تھی شہر کے گل تو ہیں ، خوں آشام اب کے
کھیلتے کودتے جن گلیوں میں ہوتے ہیں جواں
ان جوانوں کے ہیں خوں رنگ درو بام اب کے
انّا لِلّلہ جو ہوئے لقمہ ء دہشت گردی
چلتے پھرتے بھی تو بے روح سے اجسام اب کے
فاختاؤں سے جو پوچھا تو وہ یوں گویا ہوئیں
امن کی آشا لگےآرزوئے خام اب کے
باندھ کر سر سے کفن گھر سے نکلیئے ہر روز
یا تو پھر چل ہی پڑیں اوڑھ کے احرام اب کے
شہر کی بُلبلیں روتے ہوئے کہتی ہیں ندیم
گیت کیا گائیں بسیروں پہ ہے کہرام اب کے
ندیم مراد N A D E E M M U R A D
شہر کا نام تو بس رہ گیا ہے نام اب کے
اپنے ہی گھر میں سکوں ملنا ہے دشوار بہت
جنگلوں میں ہی چلو کرنے کو آرام اب کے
میں نے جنگل جو کہا شہر کو ، جگنو بولا
تھا فقط میرا ہی گھر ، کرنے کو بدنام اب کے
ایک کیاری پہ بھٹکتی ہوئی تتلی دیکھی
کہتی تھی شہر کے گل تو ہیں ، خوں آشام اب کے
کھیلتے کودتے جن گلیوں میں ہوتے ہیں جواں
ان جوانوں کے ہیں خوں رنگ درو بام اب کے
انّا لِلّلہ جو ہوئے لقمہ ء دہشت گردی
چلتے پھرتے بھی تو بے روح سے اجسام اب کے
فاختاؤں سے جو پوچھا تو وہ یوں گویا ہوئیں
امن کی آشا لگےآرزوئے خام اب کے
باندھ کر سر سے کفن گھر سے نکلیئے ہر روز
یا تو پھر چل ہی پڑیں اوڑھ کے احرام اب کے
شہر کی بُلبلیں روتے ہوئے کہتی ہیں ندیم
گیت کیا گائیں بسیروں پہ ہے کہرام اب کے
ندیم مراد N A D E E M M U R A D
ملے کہیں جو موت بھی ندیم اس کو بھینچ لو کبھی خوشی خرید لو کبھی کسی سے مانگ لو
جمع کرو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
نصیب ہجر ہی سہی ملے نظر تو ہنس پڑو
ستم کرو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
خوشی کا رنگ چاہیئے، کرو بیانِ غم مگر
سخن ورو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
تمہاری چھن چھنن کی خُو سے اور مچل نہ جائے دل
اے گھنگروؤ ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
دبانا چاہو سائباں کی آرزو کو دل میں گر
اے بے گھرو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
ترے ہزارہا ستم ہیں بے مروتی سے کم
جدا رہو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
اگرچہ رندِمست ہیں،نشے میں ڈوبنا نہیں
سو مے بھرو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
بس ایک ساعتِ سکوں میں دشتِ نار پار کر
نہ یوں جلو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
ملے کہیں جو موت بھی ندیم اس کو بھینچ لو
نہ یوں مرو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام ندیم مراد N A D E E M M U R A D
جمع کرو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
نصیب ہجر ہی سہی ملے نظر تو ہنس پڑو
ستم کرو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
خوشی کا رنگ چاہیئے، کرو بیانِ غم مگر
سخن ورو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
تمہاری چھن چھنن کی خُو سے اور مچل نہ جائے دل
اے گھنگروؤ ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
دبانا چاہو سائباں کی آرزو کو دل میں گر
اے بے گھرو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
ترے ہزارہا ستم ہیں بے مروتی سے کم
جدا رہو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
اگرچہ رندِمست ہیں،نشے میں ڈوبنا نہیں
سو مے بھرو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
بس ایک ساعتِ سکوں میں دشتِ نار پار کر
نہ یوں جلو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام
ملے کہیں جو موت بھی ندیم اس کو بھینچ لو
نہ یوں مرو ذرا ذرا کہ زندگی ہے تلخ جام ندیم مراد N A D E E M M U R A D