Poetries by nahid alam
جب صبح روشن ہوتی ہے جب صبح روشن ہوتی ہے
ماہتاب کہیں کھو جاتا ہے
شب کا آخری تارا بھی
چپکے سے سوجاتا ہے
رات کی سرمئی چادر سے
آفتاب کی پہلی کرن جھانکتی ہے
جیسے ہو کوئی کمسن دلہن
باد صبا کے نرم جھونکے
چوم کے منہ بند کلیوں کا
کھلتا پھول بنا دیتے ہیں
رات کے آنسو موتی بن کر
نظروں کو بھا جاتے ہیں
ابھی چمکتے ہیں ابھی کھو جاتے ہیں
کتنے پنچھی گاتے ہیں
سب ہی دل کو بھاتے ہیں
ایسے میں تیری یادوں کے
خشک پھول بھی مہک جاتے ہیں nahid alam
ماہتاب کہیں کھو جاتا ہے
شب کا آخری تارا بھی
چپکے سے سوجاتا ہے
رات کی سرمئی چادر سے
آفتاب کی پہلی کرن جھانکتی ہے
جیسے ہو کوئی کمسن دلہن
باد صبا کے نرم جھونکے
چوم کے منہ بند کلیوں کا
کھلتا پھول بنا دیتے ہیں
رات کے آنسو موتی بن کر
نظروں کو بھا جاتے ہیں
ابھی چمکتے ہیں ابھی کھو جاتے ہیں
کتنے پنچھی گاتے ہیں
سب ہی دل کو بھاتے ہیں
ایسے میں تیری یادوں کے
خشک پھول بھی مہک جاتے ہیں nahid alam
کل شام تو جب مجھ سے ملا کل شام تو جب مجھ سے ملا
انچاہے اشکوں کے پردے سے
یہ تیرا چاند چہرا
کچھ ایسے دھندلایا جیسے
صحرا کی چاندنی راتوں میں
اڑتی ریت کے پیچھے
چودھویں کا ہو چاند جیسے
تیرے استقبال کو اک پھیکی سی مسکان
میسر آئی مجھے
جیسے خزاں کے آخری پھول نے
بہار کو خوش آمدید کہا ہو
اور خود
خاک بسر ہو گیا ہو nahid alam
انچاہے اشکوں کے پردے سے
یہ تیرا چاند چہرا
کچھ ایسے دھندلایا جیسے
صحرا کی چاندنی راتوں میں
اڑتی ریت کے پیچھے
چودھویں کا ہو چاند جیسے
تیرے استقبال کو اک پھیکی سی مسکان
میسر آئی مجھے
جیسے خزاں کے آخری پھول نے
بہار کو خوش آمدید کہا ہو
اور خود
خاک بسر ہو گیا ہو nahid alam
آنکھوں کی زباں نہ سمجھے کوئی آنکھوں کی زباں نہ سمجھے کوئی
لب کھلنے تلک نہ ٹہرے کوئی
ھر شخص کو ہے منزل کی جستجو یہاں
ھمسفری کی آس پر نہ بھٹکے کوئی
کب تک ریگزار حیات میں تنہا بھٹکتے ہم
نہ تھا نخلستاں کوئی نہ سائیباں کوئی
کیسے آتا یقین ساتھ چلو گے عمر بھر
نہ ہی کیا اقرار وفا کا نہ ہی وعدہ کوئی
مانا کہ تجھ میں تھیں خوبیاں بیشمار
تو تھا دل سے ہمارا یقین دلاتا کوئی
نادان دل کی بات ہم مان ہی لیتے
عقل کو گر چرا لے جاتا کوئی nahid alam
لب کھلنے تلک نہ ٹہرے کوئی
ھر شخص کو ہے منزل کی جستجو یہاں
ھمسفری کی آس پر نہ بھٹکے کوئی
کب تک ریگزار حیات میں تنہا بھٹکتے ہم
نہ تھا نخلستاں کوئی نہ سائیباں کوئی
کیسے آتا یقین ساتھ چلو گے عمر بھر
نہ ہی کیا اقرار وفا کا نہ ہی وعدہ کوئی
مانا کہ تجھ میں تھیں خوبیاں بیشمار
تو تھا دل سے ہمارا یقین دلاتا کوئی
نادان دل کی بات ہم مان ہی لیتے
عقل کو گر چرا لے جاتا کوئی nahid alam