Poetries by nosheen fatima abdulhaqq
تعلق کا بھرم رکھنا ضروری ہے ضروری کیا نہیں اور کیا ضروری ہے
بھلا اس بحث میں پڑنا ضروری ہے؟
تو اپنا ظرف تھوڑا اور اونچا کر
تعلق کا بھرم رکھنا ضروری ہے
سبھی کچھ جانتے ہو پھر بھی کہتے ہو
خموشی سے گزر جانا ضروری ہے
بلندی پر پہنچ کر بھول جاتے ہو
کہ نیچے دیکھنا کتنا ضروری ہے
تعلق پائداری چاہتا ہے اب
اگر چاہو کوئی رشتہ ضروری ہے
نہیں تو چاہ مٹ جائےگی رشتوں سے
ذرا سا فاصلہ رکھنا ضروری ہے
مجھے معلوم ہے میرے لیے نوشی
کہاں تک کوئی اور کتنا ضروری ہے nosheen fatima abdulhaqq
بھلا اس بحث میں پڑنا ضروری ہے؟
تو اپنا ظرف تھوڑا اور اونچا کر
تعلق کا بھرم رکھنا ضروری ہے
سبھی کچھ جانتے ہو پھر بھی کہتے ہو
خموشی سے گزر جانا ضروری ہے
بلندی پر پہنچ کر بھول جاتے ہو
کہ نیچے دیکھنا کتنا ضروری ہے
تعلق پائداری چاہتا ہے اب
اگر چاہو کوئی رشتہ ضروری ہے
نہیں تو چاہ مٹ جائےگی رشتوں سے
ذرا سا فاصلہ رکھنا ضروری ہے
مجھے معلوم ہے میرے لیے نوشی
کہاں تک کوئی اور کتنا ضروری ہے nosheen fatima abdulhaqq
تمھارے آنے کا پیش خیمہ بنا کرےگا تمھارے آنے کا پیش خیمہ بنا کرےگا
یہ پھول اکثر اسی بہانے کھلا کرےگا
پھر اس کی ضد میں خدائے معشوق کیا کرےگا
جو اسم اعظم سے عشق کی ابتدا کرےگا
میں سدرتہ المنتہی پہ آ کے رکی ہوئی ہوں
اب آگے جو بھی کرےگا میرا خدا کرےگا
یہ لوگ خود کو ستم رسیدہ سمجھ رہے ہیں
کہا گیا تھا وہ سب کے حق میں دعا کرےگا
شکستہ دل ڈھونڈ پھر محبت کر اس سے نوشی
جفا کا مارا ضرور تجھ سے وفا کرےگا Nosheen Fatima Abdulhaqq
یہ پھول اکثر اسی بہانے کھلا کرےگا
پھر اس کی ضد میں خدائے معشوق کیا کرےگا
جو اسم اعظم سے عشق کی ابتدا کرےگا
میں سدرتہ المنتہی پہ آ کے رکی ہوئی ہوں
اب آگے جو بھی کرےگا میرا خدا کرےگا
یہ لوگ خود کو ستم رسیدہ سمجھ رہے ہیں
کہا گیا تھا وہ سب کے حق میں دعا کرےگا
شکستہ دل ڈھونڈ پھر محبت کر اس سے نوشی
جفا کا مارا ضرور تجھ سے وفا کرےگا Nosheen Fatima Abdulhaqq
اتنی جلدی بھی کیا ہے جانے کی؟ ہنس کے باتوں کو ٹال جانے کی
ہے پرانی روش زمانے کی
ہم کو مطلب ہے اس کے مالک سے
تم ہی لو چابیاں خزانے کی
کاش رکھ لے وہی ہماری لاج
ہم کو عادت نہیں منانے کی
ٹھہریے! دیکھیے مری جانب
اتنی جلدی بھی کیا ہے جانے کی
یوں بھی نوشی تمھارے حق میں ہے
تک نہیں بنتی آزمانے کی Nosheen Fatima Abdulhaqq
ہے پرانی روش زمانے کی
ہم کو مطلب ہے اس کے مالک سے
تم ہی لو چابیاں خزانے کی
کاش رکھ لے وہی ہماری لاج
ہم کو عادت نہیں منانے کی
ٹھہریے! دیکھیے مری جانب
اتنی جلدی بھی کیا ہے جانے کی
یوں بھی نوشی تمھارے حق میں ہے
تک نہیں بنتی آزمانے کی Nosheen Fatima Abdulhaqq
سب کچھ اچھا چل رہا ہے جان من ! مجھ میں تو دکھنے لگا ہے جان من
حسن میرا بڑھ گیا ہے جان من
کیا کروں یہ عمر چھوٹی پڑ گئی
عشق لمبا ہو چلا ہے جان من
یوں نہ ہو میں پوچھنا ہی چھوڑ دوں
مجھ کو دیکھو ! کیا ہوا ہے جان من
تم نہیں ہو کچھ نہیں ہے , ویسے تو
سب کچھ اچھا چل رہا ہے جان من
ایک مصرع میں لکھا ہے تیرا نام
شعر اچھا ہوگیا ہے جان من Nosheen Fatima Abdulhaqq
حسن میرا بڑھ گیا ہے جان من
کیا کروں یہ عمر چھوٹی پڑ گئی
عشق لمبا ہو چلا ہے جان من
یوں نہ ہو میں پوچھنا ہی چھوڑ دوں
مجھ کو دیکھو ! کیا ہوا ہے جان من
تم نہیں ہو کچھ نہیں ہے , ویسے تو
سب کچھ اچھا چل رہا ہے جان من
ایک مصرع میں لکھا ہے تیرا نام
شعر اچھا ہوگیا ہے جان من Nosheen Fatima Abdulhaqq
مجھے آنکھوں پہ کیوں یقیں نہیں ہے؟ حسن کو عشق پر یقیں نہیں ہے
خواب تعبیر کے قریں نہیں ہے
گر ترے دل کی دھڑکنوں میں نہیں
پھر مرا نام تو کہیں نہیں ہے
یعنی سجدے تمام ہیں بےسود
گر کوئی داغ برجبیں نہیں ہے
اے مقدر ! مجھے تو موقع دے
تیرے قبضے میں وہ حسیں نہیں ہے
وہ ملے اور مل کے جا بھی چکے
مجھے آنکھوں پہ کیوں یقیں نہیں ہے
کیا وہ خلوت پسند ہے نوشین
یا جہاں میں ہوں بس وہیں نہیں ہے؟ Nosheen Fatima Abdulhaqq
خواب تعبیر کے قریں نہیں ہے
گر ترے دل کی دھڑکنوں میں نہیں
پھر مرا نام تو کہیں نہیں ہے
یعنی سجدے تمام ہیں بےسود
گر کوئی داغ برجبیں نہیں ہے
اے مقدر ! مجھے تو موقع دے
تیرے قبضے میں وہ حسیں نہیں ہے
وہ ملے اور مل کے جا بھی چکے
مجھے آنکھوں پہ کیوں یقیں نہیں ہے
کیا وہ خلوت پسند ہے نوشین
یا جہاں میں ہوں بس وہیں نہیں ہے؟ Nosheen Fatima Abdulhaqq
مجھے آنکھوں پہ کیوں یقیں نہیں ہے؟ حسن کو عشق پر یقیں نہیں ہے
خواب تعبیر کے قریں نہیں ہے
گر ترے دل کی دھڑکنوں میں نہیں
پھر مرا نام تو کہیں نہیں ہے
یعنی سجدے تمام ہیں بےسود
گر کوئی داغ برجبیں نہیں ہے
اے مقدر ! مجھے تو موقع دے
تیرے قبضے میں وہ حسیں نہیں ہے
وہ ملے اور مل کے جا بھی چکے
مجھے آنکھوں پہ کیوں یقیں نہیں ہے
کیا وہ خلوت پسند ہے نوشین
یا جہاں میں ہوں بس وہیں نہیں ہے؟ nosheen fatima abdulhaqq
خواب تعبیر کے قریں نہیں ہے
گر ترے دل کی دھڑکنوں میں نہیں
پھر مرا نام تو کہیں نہیں ہے
یعنی سجدے تمام ہیں بےسود
گر کوئی داغ برجبیں نہیں ہے
اے مقدر ! مجھے تو موقع دے
تیرے قبضے میں وہ حسیں نہیں ہے
وہ ملے اور مل کے جا بھی چکے
مجھے آنکھوں پہ کیوں یقیں نہیں ہے
کیا وہ خلوت پسند ہے نوشین
یا جہاں میں ہوں بس وہیں نہیں ہے؟ nosheen fatima abdulhaqq
شکاری اب نیا اسلوب صید ایجاد کرتے ہیں وفا کی جاں بلب رسموں پہ استبداد کرتے ہیں
پرانی نبھ نہیں پاتیں نئی ایجاد کرتے ہیں
عمارت پھر اٹھائی جائےگی پختہ تعلق کی
چلو پہلے ہم اچھے خلق کو بنیاد کرتے ہیں
یہ میرے فن کی عظمت ہے کہ میں خاموش رہتی ہوں
جدل باہم مرے مداح اور نقاد کرتے ہیں
نظر رکھتے ہیں چڑیا پر پکڑتے فاختہ کو ہیں
شکاری اب نیا اسلوب صید ایجاد کرتے ہیں
سخن میں کرتے ہیں ساقی کا بھی اور شیخ کا بھی ذکر
ہم اچھے لوگ ہیں نوشی ! ہر اک کو شاد کرتے ہیں nosheen fatima abdulhaqq
پرانی نبھ نہیں پاتیں نئی ایجاد کرتے ہیں
عمارت پھر اٹھائی جائےگی پختہ تعلق کی
چلو پہلے ہم اچھے خلق کو بنیاد کرتے ہیں
یہ میرے فن کی عظمت ہے کہ میں خاموش رہتی ہوں
جدل باہم مرے مداح اور نقاد کرتے ہیں
نظر رکھتے ہیں چڑیا پر پکڑتے فاختہ کو ہیں
شکاری اب نیا اسلوب صید ایجاد کرتے ہیں
سخن میں کرتے ہیں ساقی کا بھی اور شیخ کا بھی ذکر
ہم اچھے لوگ ہیں نوشی ! ہر اک کو شاد کرتے ہیں nosheen fatima abdulhaqq
ابھی بھی جاننا چاہوگے مسئلہ دل کا؟! ازل سے عشق ہے ذاتی معاملہ دل کا
چپ اے خرد ! ذرا سننے دے فیصلہ دل کا
یہ عشق باختہ لشکر یہ عشق بےزاری
چلےگا کب تلک ان سے مقابلہ دل کا؟
تم ایک جسم میں رہتے ہو دوستی سے رہو
رہے بخیر خرد سے معاملہ دل کا
بڑھیں گی آگہی سے ذمہ داریاں ہمدم
ابھی بھی جاننا چاہوگے مسئلہ دل کا؟
دھڑک رہا ہے اگرچہ ابھی ابھی ٹوٹا
یہیں سے دیکھ ذرا یار حوصلہ دل کا nosheen fatima abdulhaqq
چپ اے خرد ! ذرا سننے دے فیصلہ دل کا
یہ عشق باختہ لشکر یہ عشق بےزاری
چلےگا کب تلک ان سے مقابلہ دل کا؟
تم ایک جسم میں رہتے ہو دوستی سے رہو
رہے بخیر خرد سے معاملہ دل کا
بڑھیں گی آگہی سے ذمہ داریاں ہمدم
ابھی بھی جاننا چاہوگے مسئلہ دل کا؟
دھڑک رہا ہے اگرچہ ابھی ابھی ٹوٹا
یہیں سے دیکھ ذرا یار حوصلہ دل کا nosheen fatima abdulhaqq
ہمیشہ تربیت ناقص نہیں ہوتی تو تم اب دل کے کہنے پر چلو گے کیا؟
مروت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے
ہمیشہ تربیت ناقص نہیں ہوتی
وراثت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے
نہیں اس عشق کا موجب تمھارا حسن
ضرورت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے
کرو گے عشق تو صحرا نوردی بھی
روایت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے
سبب مت ڈھونڈ اس تقلید کا ناداں
عقیدت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے
تمھارے خواب پیارے ہیں مگر نوشی
حقیقت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے nosheen fatima abdulhaqq
مروت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے
ہمیشہ تربیت ناقص نہیں ہوتی
وراثت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے
نہیں اس عشق کا موجب تمھارا حسن
ضرورت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے
کرو گے عشق تو صحرا نوردی بھی
روایت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے
سبب مت ڈھونڈ اس تقلید کا ناداں
عقیدت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے
تمھارے خواب پیارے ہیں مگر نوشی
حقیقت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے nosheen fatima abdulhaqq
محبت بڑی خوب صورت بلا ہے محبت بڑی خوب صورت بلا ہے
درندوں میں شفقت اسی کی عطا ہے
گلوں کا بدن کیوں مسلنے لگی ہے
نہ جانے ہوا پر جنوں کیا چڑها ہے
مرے قرب کی ضد میں نادان سورج
قمر کی رقابت میں جلنے لگا ہے
جہاں تتلیاں ہوش کهونے لگیں ہوں
وہاں گل کو خوشبو بهی اک بددعا ہے
کٹهن رہگزر سے سبق سیکهنا ہو
تو دشوار راہوں کا اپنا مزہ ہے
ہمیں رہ دکهاتے ہوئے ایک جگنو
بچارہ بهٹکتا چلا جا رہا ہے
پتنگے فدا ہو گئے لیک نوشی
نہ شمع ان کو حاصل ، نہ راضی خدا ہے nosheen fatima abdulhaqq
درندوں میں شفقت اسی کی عطا ہے
گلوں کا بدن کیوں مسلنے لگی ہے
نہ جانے ہوا پر جنوں کیا چڑها ہے
مرے قرب کی ضد میں نادان سورج
قمر کی رقابت میں جلنے لگا ہے
جہاں تتلیاں ہوش کهونے لگیں ہوں
وہاں گل کو خوشبو بهی اک بددعا ہے
کٹهن رہگزر سے سبق سیکهنا ہو
تو دشوار راہوں کا اپنا مزہ ہے
ہمیں رہ دکهاتے ہوئے ایک جگنو
بچارہ بهٹکتا چلا جا رہا ہے
پتنگے فدا ہو گئے لیک نوشی
نہ شمع ان کو حاصل ، نہ راضی خدا ہے nosheen fatima abdulhaqq
ہر دوا بےاثر ہے بجز شاعری آپ کی ہو جو مرضی کیا کیجیے
دل نہ چاہے اگر مت وفا کیجیے
اس طرح میرے حق میں بهلا کیجیے
مسکرا دیجیے ، خوش رہا کیجیے
اپنی خوشیاں مقدم رکها کیجیے
اور میرے لیے بس دعا کیجیے
مر ہی جائیں گے ہم ، غم کے سائے تلے
اور کچه دیر بس حوصلہ کیجیے
محفل دشمناں ہی میں جا کر بنی
جب نہ ہو کوئی اپنا تو کیا کیجیے
ہر دوا بےاثر ہے بجز شاعری
نیم پاگل ہے نوشی ، دعا کیجیے . nosheen fatima abdulhaqq
دل نہ چاہے اگر مت وفا کیجیے
اس طرح میرے حق میں بهلا کیجیے
مسکرا دیجیے ، خوش رہا کیجیے
اپنی خوشیاں مقدم رکها کیجیے
اور میرے لیے بس دعا کیجیے
مر ہی جائیں گے ہم ، غم کے سائے تلے
اور کچه دیر بس حوصلہ کیجیے
محفل دشمناں ہی میں جا کر بنی
جب نہ ہو کوئی اپنا تو کیا کیجیے
ہر دوا بےاثر ہے بجز شاعری
نیم پاگل ہے نوشی ، دعا کیجیے . nosheen fatima abdulhaqq
منحصر ہے ترے انداز بیاں پر نوشی ! صرف اک چشم عنایت کی طلب ہوتی ہے
بات چهوٹی سی ہے صحرا کا گلستاں ہونا
گهر اجڑنے پہ پریشان ہوا پهرتا ہے
جس نے دیکها ہی نہیں قلب کا ویراں ہونا
کج ادائی مرے زخموں کے لیے مرہم ہے
بےحد آساں ہے یہاں درد کا درماں ہونا
منحصر ہے ترے انداز بیاں پر نوشی
عین ممکن ہے ہر اک شعر کا دیواں ہونا nosheen fatima abdulhaqq
بات چهوٹی سی ہے صحرا کا گلستاں ہونا
گهر اجڑنے پہ پریشان ہوا پهرتا ہے
جس نے دیکها ہی نہیں قلب کا ویراں ہونا
کج ادائی مرے زخموں کے لیے مرہم ہے
بےحد آساں ہے یہاں درد کا درماں ہونا
منحصر ہے ترے انداز بیاں پر نوشی
عین ممکن ہے ہر اک شعر کا دیواں ہونا nosheen fatima abdulhaqq
ہم دل والے پلکوں سے موتی چنتے ہیں
ہم یوں خواب اکثر بنتے ہیں
غم ہوں تو ہم خوش رہتے ہیں
خوشیاں مشکل سے سہتے ہیں
ہم قطرے میں دریا ڈھونڈیں
اور ساگر سے ناراضی ہے
محرم کو مجرم ٹھہرائیں
نامحرم اپنا قاضی ہے
حیراں کن اپنی منطق ہے
کوا رنگوں کا عاشق ہے
بلبل جب گانا گاتی ہے
عاشق ہی کو بہلاتی ہے
جاناں کے چہرے پر خوشیاں
جب رقاصائیں بنتی ہیں
تب خوشبوئیں اس منظر کو
رنگوں کی صورت جنتی ہیں
تب جا کر پیدا ہوتی ہیں
کلیاں ، جو عمدہ ہوتی ہیں
بادل کچھ کھویا کرتے ہیں
ورنہ کیوں رویا کرتے ہیں ؟
اک دن اک عاشق نے گل کو
کچھ یوں نرمی سے چوما تھا
بےخود ہو کر پھر گھنٹوں وہ
مستی میں آ کر جھوما تھا
تب سے ہم سنتے رہتے ہیں
پھولوں کو نازک کہتے ہیں
ہم بس جھونکے سے ڈرتے ہیں
طوفاں سے کھیلا کرتے ہیں
ہم عشق لاحاصل والے
ہم ساگر بن ساحل والے
نوشی ! گمشدہ منزل والے
کنتے پاگل ہیں دل والے nosheen fatima abdulhaqq
ہم یوں خواب اکثر بنتے ہیں
غم ہوں تو ہم خوش رہتے ہیں
خوشیاں مشکل سے سہتے ہیں
ہم قطرے میں دریا ڈھونڈیں
اور ساگر سے ناراضی ہے
محرم کو مجرم ٹھہرائیں
نامحرم اپنا قاضی ہے
حیراں کن اپنی منطق ہے
کوا رنگوں کا عاشق ہے
بلبل جب گانا گاتی ہے
عاشق ہی کو بہلاتی ہے
جاناں کے چہرے پر خوشیاں
جب رقاصائیں بنتی ہیں
تب خوشبوئیں اس منظر کو
رنگوں کی صورت جنتی ہیں
تب جا کر پیدا ہوتی ہیں
کلیاں ، جو عمدہ ہوتی ہیں
بادل کچھ کھویا کرتے ہیں
ورنہ کیوں رویا کرتے ہیں ؟
اک دن اک عاشق نے گل کو
کچھ یوں نرمی سے چوما تھا
بےخود ہو کر پھر گھنٹوں وہ
مستی میں آ کر جھوما تھا
تب سے ہم سنتے رہتے ہیں
پھولوں کو نازک کہتے ہیں
ہم بس جھونکے سے ڈرتے ہیں
طوفاں سے کھیلا کرتے ہیں
ہم عشق لاحاصل والے
ہم ساگر بن ساحل والے
نوشی ! گمشدہ منزل والے
کنتے پاگل ہیں دل والے nosheen fatima abdulhaqq
تری بےشمار ہیں رحمتیں ، مری شاعری تو سقیم ہے تری بےشمار ہیں رحمتیں ، مری شاعری تو سقیم ہے
مرے سارے لفظ حقیر ہیں ، تری ذات پاک عظیم ہے
کڑی دهوپ میں بهی ہے سایہ تیری ہی رحمتوں کی گهٹاوں کا
مجهے ماننا ہی پڑا کہ تو ہی رحیم اور کریم ہے
یہ زمیں تری یہ فلک ترا ، مری زندگی بهی تری عطا
ترے نام ہی سے جلا ملی ، مری ذات ورنہ عدیم ہے
تری یاد کا یہ کمال ہے ، مرے ہوش میں بهی جنون ہے
مری شاعری ہے اگر کنول ، تری بات مثل شمیم ہے nosheen fatima abdulhaqq
مرے سارے لفظ حقیر ہیں ، تری ذات پاک عظیم ہے
کڑی دهوپ میں بهی ہے سایہ تیری ہی رحمتوں کی گهٹاوں کا
مجهے ماننا ہی پڑا کہ تو ہی رحیم اور کریم ہے
یہ زمیں تری یہ فلک ترا ، مری زندگی بهی تری عطا
ترے نام ہی سے جلا ملی ، مری ذات ورنہ عدیم ہے
تری یاد کا یہ کمال ہے ، مرے ہوش میں بهی جنون ہے
مری شاعری ہے اگر کنول ، تری بات مثل شمیم ہے nosheen fatima abdulhaqq
ایک ٹھوکر پہ وہ ناداں سر بازار گرے ۔ نہ گرے ہیں کبھی اعداء , نہ ہی اغیار گرے
جب بھی نظروں سے گرے یار و نمک خوار گرے
جن کا آموختہ دہراتے رہے مور و صبا
ایک ٹھوکر پہ وہ ناداں سر بازار گرے
ہمیں گرتا ہوا دیکھا تو وہ خوش ہو کے ہنسے
ہم اٹھے , پھر گرے , پھر اٹھ کے کئی بار گرے
مقصد زندگی بس ایک بچا ہے نوشی
جیسے ممکن ہو بس اک دوجے کی دستار گرے نوشین فاطمہ عبدالحق
جب بھی نظروں سے گرے یار و نمک خوار گرے
جن کا آموختہ دہراتے رہے مور و صبا
ایک ٹھوکر پہ وہ ناداں سر بازار گرے
ہمیں گرتا ہوا دیکھا تو وہ خوش ہو کے ہنسے
ہم اٹھے , پھر گرے , پھر اٹھ کے کئی بار گرے
مقصد زندگی بس ایک بچا ہے نوشی
جیسے ممکن ہو بس اک دوجے کی دستار گرے نوشین فاطمہ عبدالحق
یوم آزادی مبارک ہو مقید زندگی کو یوم آزادی مبارک ہو
وطن میں ہر کسی کو یوم آزادی مبارک ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہیں پاؤں میں تو سب کے بیڑیاں رسموں ، رواجوں کی
سروں کے واسطے خواہش ہے لیکن ہم کو تاجوں کی
ہم اہلِ بندگی کو یوم آزادی مبارک ہو
وطن میں ہر کسی کو یوم آزادی مبارک ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زمانے کے خداؤں کا یہاں ہر بندہ قیدی ہے
اگر کوئی بچا بھی ہے تو وہ دشمن کا بھیدی ہے
مگر پھر بھی سبھی کو یوم آزادی مبارک ہو
وطن میں ہر کسی کو یوم آزادی مبارک ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مرے گھر سونے کے پنجرے میں اک پیارا سا توتا ہے
نہ جانے کیوں بہاروں کو وہ کر کے یاد روتا ہے
مری اس سادگی کو یوم آزادی مبارک ہو
وطن میں ہر کسی کو یوم آزادی مبارک ہو
---------------------------
سانحۂ قصور کے نام :
یہ کہتی ہے مری عصمت , وہ کیوں آزاد پھرتے ہیں؟
جو گلیوں میں محلوں میں بنے صیاد پھرتے ہیں
نری مردانگی کو یوم آزادی مبارک ہو
وطن میں ہر کسی کو یوم آزادی مبارک ہو۔ نوشین فاطمہ عبدالحق
وطن میں ہر کسی کو یوم آزادی مبارک ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہیں پاؤں میں تو سب کے بیڑیاں رسموں ، رواجوں کی
سروں کے واسطے خواہش ہے لیکن ہم کو تاجوں کی
ہم اہلِ بندگی کو یوم آزادی مبارک ہو
وطن میں ہر کسی کو یوم آزادی مبارک ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زمانے کے خداؤں کا یہاں ہر بندہ قیدی ہے
اگر کوئی بچا بھی ہے تو وہ دشمن کا بھیدی ہے
مگر پھر بھی سبھی کو یوم آزادی مبارک ہو
وطن میں ہر کسی کو یوم آزادی مبارک ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مرے گھر سونے کے پنجرے میں اک پیارا سا توتا ہے
نہ جانے کیوں بہاروں کو وہ کر کے یاد روتا ہے
مری اس سادگی کو یوم آزادی مبارک ہو
وطن میں ہر کسی کو یوم آزادی مبارک ہو
---------------------------
سانحۂ قصور کے نام :
یہ کہتی ہے مری عصمت , وہ کیوں آزاد پھرتے ہیں؟
جو گلیوں میں محلوں میں بنے صیاد پھرتے ہیں
نری مردانگی کو یوم آزادی مبارک ہو
وطن میں ہر کسی کو یوم آزادی مبارک ہو۔ نوشین فاطمہ عبدالحق
تیری خاطر عشق ! کیا کہنا پڑا ۔ یاس کے سائے میں کیا کہنا پڑا
زندگی کو اک سزا کہنا پڑا
حسن! تیرے ہوتے آخر کیوں ہمیں
عشق کو بےآسرا کہنا پڑا ؟
طعنہ زن کو خوش مزاجی کے سبب
آخرش مدحت سرا کہنا پڑا
صرف اس دل کی تسلی کے لیے
ظلم کو بھی اک ادا کہنا پڑا
آگ کو پانی کہا , غم کو خوشی
تیری خاطر عشق! کیا کہنا پڑا
تاکہ حاکم وقت کا راضی رہے
نیکیوں کو بھی خطا کہنا پڑا
جو مری نظروں میں ظالم تھے کبھی
آج انہی سے مدعا کہنا پڑا نوشین فاطمہ عبدالحق
زندگی کو اک سزا کہنا پڑا
حسن! تیرے ہوتے آخر کیوں ہمیں
عشق کو بےآسرا کہنا پڑا ؟
طعنہ زن کو خوش مزاجی کے سبب
آخرش مدحت سرا کہنا پڑا
صرف اس دل کی تسلی کے لیے
ظلم کو بھی اک ادا کہنا پڑا
آگ کو پانی کہا , غم کو خوشی
تیری خاطر عشق! کیا کہنا پڑا
تاکہ حاکم وقت کا راضی رہے
نیکیوں کو بھی خطا کہنا پڑا
جو مری نظروں میں ظالم تھے کبھی
آج انہی سے مدعا کہنا پڑا نوشین فاطمہ عبدالحق