✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
Shabeeb Hashmi
Search
Add Poetry
Poetries by Shabeeb Hashmi
تیری خاطر ھم اک شام چرانے نکلے
تیری خاطر ھم اک شام چرانے نکلے
درد میں ڈھال کے خود کو آزمانے نکلے
پھر انہی ترسی نظروں سے تماشا دیکھا
بات اتنی سی تھی کہ سب زخم پرانے نکلے
غم کی آغوش میں خود کو سمیٹا ایسے
رات آتی ھے تو پھر ھم سوگ منانے نکلے
وہ جو نظروں میں طلاطم تھا دیکھا سب نے
راز جو آنکھوں سے عیاں تھے وہ چھپانے نکلے
میری تقدیر میں تنہائی کے سوا کچھ بھی نہیں
تیرے آنے کے سبھی وعدے تو بہانے نکلے
SHABEEB HASHMI
Copy
برداشت نہ ھوا تو یوں شہرت سے مر گئے
غم رزق کے سفر میں اذیت سے مر گئے
کبھی ہاتھ نہ پھیلایا تو غیرت سے مر گئے
دکھوں کی ساری منزلیں سسکتے گزر گئیں
تنہائی کے اس نگر میں حیرت سے مر گئے
کچھ واسطہ رہا تھا جدائی کی شام سے
اور جب رات تھی ملن کی تو وحشت سے مر گئے
کشکول میں وفاء کے چند سکے نہ مل سکے
یوں مفلسی کا اوڑھ کر کفن غربت سے مر گئے
گمنامیوں کے دور میں اک دیوان تھا لکھا
برداشت نہ ھوا تو یوں شہرت سے مر گئے
SHABEEB HASHMI
Copy
میرے لمس کو پا کے وہ پتھر نہیں ھوا
دسترس میں رہا وہ میری باہر نہیں ھوا
میرے لمس کو پا کے وہ پتھر نہیں ھوا
قربت کی ساری گھڑیاں تو گزری ہیں اسطرح
کہ اک لمحہ بے خودی کا میسر نہیں ھوا
شاید یہ اسکے عشق کا دستور ہی رہا ھو
دل میں میرے سما کے وہ معتبر نہیں ھوا
تنہائی کی شام غم میں ڈوبی تھی اس طرح
کہ صبح کا وہ ستارہ پھر ظاہر نہیں ھوا
میں اسکی بے رخی اور اداؤں کا کیا کہوں
میرے ہاتھوں میں بس گیا تھا مقدر نہیں ھوا
SHABEEB HASHMI
Copy
دل وحشی سے اس شخص کو نکالا جائے
کیوں اس شوخ کی نظروں کو سنمبھالا جائے
دل وحشی سے اس شخص کو نکالا جائے
یہ ممکن ھے کہ تیرے ظلم پہ خاموش رھوں
یا تیرے رنگ میں خود کو بھی ڈھالا جائے
تجھ کو معلوم ھو کہ تنہائی کی حقیقت کیا ھے
رات کی وحشت کو تیرے آنگن میں اچھالا جائے
غم کی شدت میں بھی زخموں کو سمیٹا میں نے
درد کی صورت میں پھر اسی روگ کو پالا جائے
میرے قاتل کو اداؤں میں بڑی سبقت ھے
بڑی مشکل ھے کہ اسے بزم سے نکالا جائے
SHABEEB HASHMI
Copy
لرزتی ھوئی پلکؤں پہ برستی ہیں ھوائیں
لرزتی ھوئی پلکوؤں پہ برستی ہیں ھوائیں
ہر لمحے نیا رؤپ بدلتی ہیں ھوائیں
ھے دل کا نگر خالی مگر شور کا عالم
تنہائی کے جنگل میں بہکتی ہیں ھوائیں
اب کانپتے لبوں پر دعائیں ہیں مسلسل
تیرے وجود کے لمس کو ترستی ہیں ھوائیں
ماضی کے جھروکوں کے ورق کھول کے دیکھوں
ہر شام تیرے رنگ میں پھر ڈھلتی ہیں ھوائیں
امیدؤں کی جو شمع ھے اب ساتھ رھے گی
پروانے کے ہر رقص پہ مچلتی ہیں ھوائیں
SHABEEB HASHMI
Copy
جنت کے ھو اگر داعی تم اعمال بدل ڈالو
ماضی میں رہنا ھے تو تم حال بدل ڈالو
پنچھی نہ آب آئیں گے تم جال بدل ڈالو
اپنوں کے نشانوں پر اکثر تم رہتے ھو
گر بچنا ھے ان سے تو تم ڈھال بدل ڈالو
وقت تو گزرے گا پھر غم کے مداؤں میں
مہینے تو وہی ھو نگے تم سال بدل ڈالو
دنیا تو دلدل ھے کیوں خود کو پھنساتے ھو
ان رستوں پہ ناں جانا تم چال بدل ڈالو
خسارے کا سودا ھے عشرت کی سب راتیں
جنت کے ھو اگر داعی تو تم اعمال بدل ڈالو
کسی ویب پر ایک نصیحت اموز نظم پڑھی بے حد پسند آئی ۔
ان صاحب سے معذرت کیونکہ انکا ردیف کافیہ اپنے طریقے سے استعمال کیا ۔ شکریہ
SHABEEB HASHMI
Copy
وہ چہرہ مثل سخن ماھتاب جیسا تھا (ترمیم)
نظر کے سامنے جو چہرہ تھا خواب جیسا تھا
وہ کیسے مجھ میں سماتا جو سراب جیسا تھا
وہ میرا راتوں کی تنہائیوں میں یوں بکھر جانا
میرے بدن کو جو جلاتا تھا وہ آفتاب جیسا تھا
لفظ ھونٹوں پے یوں مچلتے راگنی کی طرح
اور وہ کھنکھتا لہجہ اس کا رباب جیسا تھا
وفاء کے نام پہ روشن چراغ تو بجھ ہی گیا
چمکتی جببیں پہ وہ ستارہ گلاب جیسا تھا
تھی روشنی جس سے میرے شہر کی گلیوں میں
اور وہ چہرہ مثل سخن ماہتاب جیسا تھا
SHABEEB HASHMI
Copy
اور جو ٹوٹ کے بکھرا ھے ستارہ وہ ایک جیسا ھے
یہ درد میرا اور تمہارا ھے وہ ایک جیسا ھے
الگ الگ ہیں دریا مگر کنارا تو ایک جیسا ھے
دکھ چھپ نہیں سکتے آنکھوں سے کبھی
اور وہ آنسوؤں کا دھارا تو ایک جییسا ھے
موسموں نے تو رنگ بدلتے ہی رھنا ھے
جو منظر دل نے اتارا ھے وہ ایک جیسا ھے
اپنی چاھت کو کوئی سا عنواں دے دو
وفاء کے نام کا استعارہ تو ایک جیسا ھے
آسماں پہ رنگوں کی اک کہکشاں ٹہری
اور جو ٹوٹ کے بکھرا ھے ستارہ وہ ایک جیسا ھے
SHABEEB HASHMI
Copy
رات ھوئی تو یاد تیری بستر پہ شکن چھوڑ گئی
رات ھوئی تو یاد تیری بستر پہ شکن چھوڑ گئی
اور کچھ نہ مل سکا تو ہلکی سی چبھن چھوڑ گئی
راہ دشوار تھی کانٹوں کا سفر بھی ساتھ رہا
جسم شل سا رہا پاؤں پہ تھکن چھوڑ گئی
خزاں آئی تو فضائیں بھی تھیں غمناک ھوئیں
پھول مرجھائے تھے اور اجڑا چمن چھوڑ گئی
مسکراتے چہرے کو غموں کے سائے دے کر
ہنستی آنکھوں کو رلانے کا فن چھوڑ گئی
تیرے ماضی کی نشانی بھی نہ کوئی ساتھ رہی
اجڑے شہروں میں گمنامی کا وطن چھوڑ گئی
داغ پھر ایسا دیا اس نے مجھے جدائی کا اپنا
کورے کاغذ پہ یوں شعرؤں کا سخن چھوڑ گئی
SHABEEB HASHMI
Copy
خاک چہرے پہ اڑی گلیوں میں سفر کرتی رہی
نیند مخمور نگاھوں میں سفر کرتی رہی
رات دریا کے کناروں پہ سفر کرتی رہی
یوں جگراتے میں رہیں گم سم سی میری آنکھیں
اسکی ھر آھٹ پہ صدیوں کا سفر کرتی رہی
میں نہ بھولا تھا کہ شب چاند کو بھی آس رہی
ستاروں کے جھرمٹ میں وہ کرنوں پہ سفر کرتی رہی
اور یہ مانا کہ میرے ھونٹوں پہ تیری پیاس رہی
جام سب ٹوٹ گئے مہ خانے میں سفر کرتی رہی
بات اتنی سی تھی کہ تیرے شہر میں بدنام ھوئے
خاک چہرے پہ اڑی گلیوں میں سفر کرتی رہی
SHABEEB HASHMI
Copy
کوئی تو پوچھے لا مکانی کا سبب
کوئی تو پوچھے لا مکانی کا سبب
جھیل سی آنکھوں میں پانی کا سبب
ستارے ٹوٹ کر گرتے ہیں کہاں
یہی بات تھی حیرانی کا سبب
بیتے لمحوں کو یاد کرتے ہیں کبھی
کیونکر تھا اسکی مہربانی کا سبب
عکس آئینے میں کھو گیا کیسے
اسکے چہرے پہ تھا پریشانی کا سبب
اور وہ تصور تھی بچھڑی یادوں کی
گھر کے آنگن کی ویرانی کا سبب
SHABEEB HASHMI
Copy
بادل ھوں برس جاؤں تو الزام نہ دینا
بادل ھوں برس جاؤں تو الزام نہ دینا
تیرے دامن میں سمٹ آؤں تو الزام نہ دینا
راحت ھوں ہمیشہ تیرے آنگن میں رھونگا
خشبؤ ھوں بکھر جاؤں تو الزام نہ دینا
میں پھول ھوں بالوں میں سجائے ھوئے رکھنا
سانسوں میں مہک جاؤں تو الزام نہ دینا
بانہوں سے لپٹ جاؤنگا گجروں کیطرح میں
قربت سے بہک جاؤں تو الزام نہ دینا
خوابوں کیطرح آنکھوں میں بسائے ھوئے رکھنا
تیری نیندوں میں بھٹک جاؤں تو الزام نہ دینا
SHABEEB HASHMI
Copy
اک دیا دیوار پر ضرور رکھو
دل کو جیتنے کا ہنر ضرور رکھو
کبھی تو مل جائیں سفر ضرور رکھو
زندگی کی دھوپ چھاؤں کے لئیے
اپنے آنگن میں شجر ضرور رکھو
رب سے مانگو تو وہ دے ڈالے
اپنی دعاؤں میں اثر ضرور رکھو
کتنی مشکل میں ھے کوئی یارو
اپنے لوگوں کی خبر ضرور رکھو
پیاسی روح بھی سیراب ھو اییسے
اپنی آنکھوں میں بحر ضرور رکھو
راستے میں روشنی بھی رھے
یوں اک دیا دیوار پر ضرور رکھو
SHABEEB HASHMI
Copy
زمیں پہ رنگ سجاؤں اور آسماں تک پہنچوں
گھر سے نکل کر اپنے تیرے آستاں تک پہنچوں
گماں کے رنگوں میں حد گماں تک پہنچوں
پھر انہی موسموں کے درمیاں چلتے چلتے
بہاروں سے نکلتے ھوئے خزاں تک پہنچوں
رات تو باقی ھے ابھی جانے کا فیصلہ نہ کرو
تیری آنکھوں سے میں عشق کی داستاں تک پہنچوں
کئی صدیوں سے مسافت کو سمیٹا ھے میں نے
تو ہی بتا دے اب میں اور کہاں تک پہنچوں
تجھے آنگن میں ستاروں کی طرح سجانے کے لیے
زمیں پہ رنگ سجاوں اور آسماں تک پہنچوں
SHABEEB HASHMI
Copy
میرے ھونٹوں پہ جو تیرا نام مہکائے خوشبؤ
میرے ھونٹوں پہ جو تیرا نام مہکائے خوشبؤ
رات بہکی ھے یہ جو پیغام سنائے خوشبؤ
پھر تری یاد کے ستارے فلک سے آن پہنچے
میری نیندوں میں تیرے خواب سجائے خوشبؤ
ہوا بھی تیرے آنے کا پتہ دے کر گزر جاتی ھے
یوں میری آنکھوں کو سر شام جگائے خوشبؤ
اور تیرے آنے کی خبر سن کے مچل جاتا ھوں
کہ وہی رنگ میرے چہرے پہ لے آئے خوشبؤ
سارے موسم بھی بڑے شوق سے تیری راہ دیکھیں
یوں میرے گھر کے دروبام بھی سجائے خوشبؤ
SHABEEB HASHMI
Copy
خود بھی حیران تھا ھوا جو انکشاف یوں کیا
ھر لمحہ میری وفاؤں کا اعتراف یوں کیا
خود بھی حیران تھا ھوا جو انکشاف یوں کیا
نفرتوں کے بیج بو دئیے میرے ہی صحن میں
میرے ہی گھر کی فصیل میں شگاف یوں کیا
وحشت کی گرد چہرے کی پہچان نہ بنے
آئینے سے اپنے عکس کو پھر صاف یوں کیا
خط بھی جلا دئیے سبھی اور نام مٹا دئیے
میرے وجود سے اس نے انحراف یوں کیا
سب لوگوں نے ھاتھوں میں پتھر اٹھا لئیے
میرے شہر کے لوگوں کو خلاف یوں کیا
SHABEEB HASHMI
Copy
اور جو تسبیح کو سنمبھالے گا وہ دھاگہ بھی عجب ھے
تیرے انداز محبت کا تقاضا بھی عجب ھے
تو مجھ میں سمائے گا یہ وعدہ بھی عجب ھے
ٹوٹے ھوئے رشتوں میں دراڑوں کا ھے جنگل
جوڑے گا سبھی بندھن یہ ارادہ بھی عجب ھے
کرچی ھوئی آنکھوں میں کئی خواب ہیں بکھرے
یوں نیند میں جو ٹوٹے گا وہ ناطہ بھی عجب ھے
آئینے بھی تیرے عکس کی بتاتے ہیں یہ حقیقت
جو اوڑھا ھے توں نے وہ لبادہ بھی عجب ھے
تیرے نام کے ورد پہ رہیں انگلیاں بھی متحرک
اور جو تسبیح کو سنمبھالے گا وہ دھاگہ بھی عجب ھے
SHABEEB HASHMI
Copy
اب شہر میں کوئی بھی پیاسا نہیں باقی
اجاڑا ھے ھواؤں نے کوئی اثاثہ نہیں باقی
اس کرب کی شدت میں کوئی دلاسہ نہیں باقی
تیرے در پہ جو ٹہرا ھے وہ واپس نہیں آیا
اب خیرات کسے دیں گے کوئی کاسہء نہیں باقی
دیوانے تیرے حسن کے ہیں تیری پناہ میں
اب شہر غریباں میں کوئی اچھا نہیں باقی
منصف نے بھی بڑے کرب سے ھے قلم کو توڑا
اب کس کو گواہ مانیں کہ کوئی سچا نہیں باقی
بانٹا ھے دریاؤں نے پانی بھی کچھ ایسے
اب شہر میں کوئی بھی پیاسا نہیں باقی ۔۔۔۔۔۔۔
Shabeeb Hashmi
Copy
دل کے جو راز تھے وہ سینے میں ہی رپوش رھے
رنگ نکھرے تو سبھی گل بھی تھے خوش پوش رھے
مہکی فضاؤں میں یوں ھواؤں کے ھم دوش رھے
لمحے تھے قید تیرے لہجے کی کھنک کو سن کر
ھم بھی تھے مست اور سراپا ہمہ تن گوش رھے
کچھ حالات بھی موافق تھے کہ جذبے تھے جواں
ھم بھی اظہار کے ان لمحوں میں تھے پر جوش رھے
الفاظ رک جائیں جو اگر آنکھوں کو سخن ور دیکھیں
سوچ پر پہرے لگے اور ھم بھی تھے خاموش رھے
میرے جذبوں کی صداقت پہ نہ کوئی حرف آئے
دل کے جو راز تھے وہ سینے میں ہی رپوش رھے
Shabeeb Hashmi
Copy
مریض عشق کے لیے صبر و قرار لے آئی
صبح کی ہوا جو خوشبؤئے یار لے آئی
میرے چمن میں نسیم بہار لے آئی
تو رونق محفل بزم چراغاں ھے صنم
تیری ادا میرے چہرے پہ نکھار لے آئی
چمکتی رہتی ہیں آنکھیں آبگینوں کیطرح
نگاہ اٹھی تو سرور و خمار لے آئی
سکوں سا رہتا ھے تیری صحبت میں اکثر
مریض عشق کے لیے صبر و قرار لے آئی
یہ شرط محبت تھی کہ وعدہ یاد رھے
وہ شام عجب تھی جو تیرا انتظار لے آئی---
SHABEEB HASHMI
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets