Tanhai
Poet: Nusrat Fateh Ali Khan By: Sadiq Shaikh, KarachiSaya Bhi Saath Jab Chor Jaaye, Aisi Hai Tanhai
Saya Bhi Saath Jab Chor Jaaye, Aisi Hai Tanhai
Rona Chahoon To, Rona Chahoon To
Aansoon Na Aayein, Aisi Hai Tanhai
Saya Bhi Saath Jab Chor Jaaye, Aisi Hai Tanhai
Saya Bhi Saath Jab Chor Jaaye, Aisi Hai Tanhai
Jo Aise Chor Ke Mehboob Jaaye
To Jeene Se Na Kyoon Dil Oobh Jaaye
Saya Bhi Saath Jab Chor Jaaye, Aisi Hai Tanhai
Saya Bhi Saath Jab Chor Jaaye, Aisi Hai Tanhai
Paya Humne Ye Bin Tere
Ranj Ki Raahein Aur Gam Ke Andhere
Ranj Ki Raahein Aur Gam Ke Andhere
Woh Bhi To Humse, Woh Bhi To Humse
Kho Gayee Hai, Aisi Hai Tanhai
Saya Bhi Saath Jab Chor Jaaye, Aisi Hai Tanhai
Saya Bhi Saath Jab Chor Jaaye, Aisi Hai Tanhai
Yaad Aate Hain, Beetey Zamaane
Jab Tum Aaye The Humko Manaane
Jab Tum Aaye The Humko Manaane
Abh To Dil Roothey, Abh To Dil Roothey
Dard Manaaye, Aisi Hai Tanhai
Saya Bhi Saath Jab Chor Jaaye, Aisi Hai Tanhai
Saya Bhi Saath Jab Chor Jaaye, Aisi Hai Tanhai
Rona Chahoon To, Rona Chahoon To
Aansoon Na Aayein, Aisi Hai Tanhai
Saya Bhi Saath Jab Chor Jaaye, Aisi Hai Tanhai
Saya Bhi Saath Jab Chor Jaaye, Aisi Hai Tanhai
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






