Add Poetry

Tujh Sa Munafik Kon

Poet: Aamir joyia By: AAMIR JOYIA, dubai

Tere He Shaher Ka Her Katil Tera Ashna Hai
Tu Ajiz Bhi Lagta Hai Magar  Tujh Sa Munafik Kon
 

Rate it:
Views: 3293
18 Jun, 2013
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
کل سے دل بیمار کی حالت نہیں اچھی کل سے دل بیمار کی حالت نہیں اچھی
اللہ کرے خیر ہو صورت نہیں اچھی
اس شوخ سے ملنے کی یہ صورت نہیں اچھی
موت اچھی مگر غیر کی منت نہیں اچھی
میں عاشق گیسو ہوں بہلتا ہے یہیں دل
کیوں کر یہ کہوں قبر کی وحشت نہیں اچھی
دیکھو کہ گلے ملتے ہی سر کاٹتی ہے تیغ
سچ کہتے ہیں ظالم کی محبت نہیں اچھی
کہہ کر کمر یار کو معدوم ہوئے غم
ہر جا پہ طبیعت کی بھی جودت نہیں اچھی
قاتل تجھے دے گا لب ہر زخم دعائیں
ہر وقت نمک ڈال یہ خست نہیں اچھی
اے شیخ نہ کر شوق میں حوروں کی عبادت
ہرگز نہ ملیں گی تری نیت نہیں اچھی
یہ کہہ کے لحد میری وہ کر جاتے ہیں پامال
پھر اس کو بناؤ کہ یہ تربت نہیں اچھی
اک عیب بھی ہے حسن کے ہم راہ بتوں میں
صورت اگر اچھی ہے تو سیرت نہیں اچھی
ہے ہے تجھے کس ظالم بے رحم نے روندا
حالت جو تری سبزۂ تربت نہیں اچھی
کیوں طور شرار رخ روشن سے جلائے
کہہ دے کوئی ان سے یہ شرارت نہیں اچھی
جاتے ہی ترے چھا گئی گھر بھر میں اداسی
میں کیا در و دیوار کی حالت نہیں اچھی
عشاق کو وہ دیکھتے ہیں چشم غضب سے
اک مصحف رخ میں یہی صورت نہیں اچھی
پیدا کرو انداز نئے تازہ ادائیں
ظلم و ستم و جور میں جدت نہیں اچھی
میں نے جو کہا رنج ہے کیا مرگ عدو کا
بولے کہ نہیں میری طبیعت نہیں اچھی
اے دیدۂ تر رو کہ کٹیں ہجر کی راتیں
برسات میں پانی کی یہ قلت نہیں اچھی
گھیرا جو مجھے دائرۂ رنج و الم نے
کیا میرے مقدر کی کتابت نہیں اچھی
اے بزمؔ اٹھا کرتا ہے کیوں درد جگر میں
سچ کہہ کسے دیکھا کہ طبیعت نہیں اچھی
ہمدان
سچ کہو کس نے لیا دل کہ جو پایا نہ گیا سچ کہو کس نے لیا دل کہ جو پایا نہ گیا
یاں ہمیں تم ہیں کوئی اور نہ آیا نہ گیا
دل میں تھی آگ لگی دیدۂ تر کو دیکھو
گھر جلا پاس کا اور اس سے بجھایا نہ گیا
دن یہ فرقت کا بڑھا چار پہر ساعت بھر
پائے دیوار سے ہٹ کر کہیں سایا نہ گیا
دل تڑپتا رہا پھر ضعف کے باعث مجھ سے
ضبط کا اپنے بھی احسان اٹھایا نہ گیا
دل مرا مر کے رہا آٹھ پہر پہلو میں
ہائے محتاج کا مردہ تھا اٹھایا نہ گیا
وعدہ کر کر کے جگایا مجھے راتوں کو مگر
میری سوتی ہوئی قسمت کو جگایا نہ گیا
یا تو یہ شوق تھا حال ان کو سناؤں جو ملیں
وائے قسمت جو ملے وہ تو سنایا نہ گیا
غیر جب ہو گیا ناراض منانے کو گئے
ایک دن روٹھ گیا میں تو منایا نہ گیا
بزم سے اس کی چلے آؤ جو بگڑا وہ بت
بیٹھنے کو کوئی فقرہ بھی بنایا نہ گیا
میرے مرنے کی خبر سن کے بھلا کیا آتے
ان سے اک بار عیادت کو بھی آیا نہ گیا
ان کی مہندی کی رہی خوب جمالی رنگت
ہم سے تو رنگ بھی محفل میں جمایا نہ گیا
مٹ گئے سنگ در یار پہ گھس گھس کے جبیں
اپنی تقدیر کے لکھے کو مٹایا نہ گیا
دونوں مجبور رہے ضعف و نزاکت کے سبب
ہم وہاں جا نہ سکے یار سے آیا نہ گیا
دور بیٹھا ہوا بھی ہم کو نہ وہ دیکھ سکے
بزم میں غیر کو پہلو سے اٹھایا نہ گیا
اس نزاکت پہ نہ کیوں جان کو قرباں کر دوں
کہ گلے پر مرے خنجر بھی پھرایا نہ گیا
ایک شب عرش پہ محبوب کو بلوا ہی لیا
ہجر وہ غم ہے خدا سے بھی اٹھایا نہ گیا
بزمؔ طاقت یہ گھٹی ہجر کی شب آہ جو کی
دل سے لب تک کئی ٹھیکوں میں بھی آیا نہ گیا
دانش
محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری
ترے قصہ کے پیچھے پیچھے ہوگی داستاں میری
کریں گی دیکھیے الفت میں کیا رسوائیاں میری
جہاں سنئے بس ان کا تذکرہ اور داستاں میری
قیامت میں بھی جھوٹی ہوگی ثابت داستاں میری
کہے گا اک جہاں ان کی وہاں یا مہرباں میری
بہت کچھ قوت گفتار ہے اے مہرباں میری
مگر ہاں سامنے ان کے نہیں کھلتی زباں میری
قیامت کا تو دن ہے ایک اور قصہ ہے طولانی
بھلا دن بھر میں کیوں کر ختم ہوگی داستاں میری
وہ رسوائے محبت ہوں رہوں گا یاد مدت تک
کہانی کی طرح ہر گھر میں ہوگی داستاں میری
سناؤں اس گل خوبی کو کیوں میں قلب کی حالت
بھلا نازک دماغی سننے دے گی داستاں میری
کہوں کچھ تو شکایت ہے رہوں چپ تو مصیبت ہے
بیاں کیوں کر کروں کچھ گو مگو ہے داستاں میری
اکیلا منزل ملک عدم میں زیر مرقد ہوں
وہ یوسف ہوں نہیں کچھ چاہ کرتا کارواں میری
یہ دل میں ہے جو کچھ کہنا ہے دامن تھام کر کہہ دوں
وہ میرے ہاتھ پکڑیں گے کہ پکڑیں گے زباں میری
پھنسایا دام میں صیاد مجھ کو خوش بیانی نے
عبث پر تو نے کترے قطع کرنی تھی زباں میری
نہ چھوٹا سلسلہ وحشت کا جب تک جاں رہی تن میں
وہ مجنوں ہوں کہ تختے پر ہی اتریں بیڑیاں میری
مشبک میں بھی تیر آہ سے سینے کو کر دوں گا
لحد جب تک بنائے گا زمیں پر آسماں میری
محبت بت کدہ کی دل میں ہے اور قصد کعبہ کا
اب آگے دیکھیے تقدیر لے جائے جہاں میری
بھلا واں کون پوچھے گا مجھے کچھ خیر ہے زاہد
میں ہوں کس میں کہ پرسش ہوگی روز امتحاں میری
تصدق آپ کے انصاف کے میں تو نہ مانوں گا
کہ بوسے غیر کے حصے کے ہوں اور گالیاں میری
مصنف خوب کرتا ہے بیاں تصنیف کو اپنی
کسی دن وہ سنیں میری زباں سے داستاں میری
فشار قبر نے پہلو دبائے خوب ہی میرے
نیا مہماں تھا خاطر کیوں نہ کرتا میزباں میری
قفس میں پھڑپھڑانے پر تو پر صیاد نے کترے
جو منہ سے بولتا کچھ کاٹ ہی لیتا زباں میری
وہ اس صورت سے بعد مرگ بھی مجھ کو جلاتی ہیں
دکھا دی شمع کو تصویر ہاتھ آئی جہاں میری
ہر اک جلسے میں اب تو حضرت واعظ یہ کہتے ہیں
اگر ہو بند مے خانہ تو چل جائے دکاں میری
طریقہ ہے یہی کیا اے لحد مہماں کی خاطر کا
میں خود بے دم ہوں تڑواتی ہے ناحق ہڈیاں میری
پسند آیا نہیں یہ روز کا جھگڑا رقیبوں کا
میں دل سے باز آیا جان چھوڑو مہرباں میری
ہزاروں ہجر میں جور و ستم تیرے اٹھائے ہیں
جو ہمت ہو سنبھال اک آہ تو بھی آسماں میری
یہ کچھ اپنی زباں میں کہتی ہیں جب پاؤں گھستا ہوں
خدا کی شان مجھ سے بولتی ہیں بیڑیاں میری
بنایا عشق نے یوسف کو گرد کارواں آخر
کہ پیچھے دل گیا پہلے گئی تاب و تواں میری
پڑھی اے بزمؔ جب میں نے غزل کٹ کٹ گئے حاسد
رہی ہر معرکہ میں تیز شمشیر زباں میری
 
ناصر
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets