Poetries by عمیر اکبر تابش
کیا جانو ! کیا جانو میں ان لمحوں میں کن حالات سے گزرا
تیرا رنگ جب تیرے لہجے کے انداز سے گزرا
بدلنا تھا تو کسی اور موسم میں بدل جاتے
خزاں کا تھا جونکھا اک جو بہار سے گزرا
یقین تیری محبت پر مجھے خود سے بھی زیادہ تھا
تیری بے رخی سے میں کس امتحان سے گزرا
گزرتے تھے سر راہ ہم اکثر جن راہوں سے
پوچھو تو ادھوری اس کبھی میں راہ سے گزرا ؟
گزرا کیا میرے دل پر تمہیں اس سے ہے کیا لینا
کبھی تو میں تھا تیرے دل کی راہ سے گزرا
سنا ہے کیا بارش میں کچے مکانوں کا ؟
اپنا بھی جدائی میں کچھ ایسا حال ہے گزرا
اسے میں بے وفا کہدوں یہ توہین محبت ہے
تیری وفا کے تابش مگر آس پاس سے گزرا umair Akbar tabish
تیرا رنگ جب تیرے لہجے کے انداز سے گزرا
بدلنا تھا تو کسی اور موسم میں بدل جاتے
خزاں کا تھا جونکھا اک جو بہار سے گزرا
یقین تیری محبت پر مجھے خود سے بھی زیادہ تھا
تیری بے رخی سے میں کس امتحان سے گزرا
گزرتے تھے سر راہ ہم اکثر جن راہوں سے
پوچھو تو ادھوری اس کبھی میں راہ سے گزرا ؟
گزرا کیا میرے دل پر تمہیں اس سے ہے کیا لینا
کبھی تو میں تھا تیرے دل کی راہ سے گزرا
سنا ہے کیا بارش میں کچے مکانوں کا ؟
اپنا بھی جدائی میں کچھ ایسا حال ہے گزرا
اسے میں بے وفا کہدوں یہ توہین محبت ہے
تیری وفا کے تابش مگر آس پاس سے گزرا umair Akbar tabish
محبت یاد آتی ہے کبھی نہ میں شاعر تھا
نہ لکھا لکھا تھا کبھی میں نے
لفظوں میں نہیں اتا تھا یوں جذبات کو لکھنا
کسی احساس کو لکھنا
یہ کمال محبت ہے جس نے مجھ کو سکھلایا
تھمایا ہاتھ میں قلم اور کاغذ مجھ کو پکڑایا
جو دیکھا تو تصو ر میں تیرا چہرہ نظر آیا
مصور تو نہیں تھا جو کوئی تصویر بنا ڈالے
نہ شاعر اتنا اچھا کے کوئی تحریر بنا ڈالے
تیری یادیں تیری باتیں تیرا وہ مسکرانا اور
غصے میں تیرا یوں ہی بس روٹھ جانا اور
مجھے پھر سے منانے کا مل جانا بہانہ اک
کتنے اچھے لگتے ہیں وہ یادوں کے سبھی منظر
جو تیری قربت میں گزرے تھے
زہر میٹھا یہ پی کر بھی ، جدائی میں جی کر بھی
ہونٹھوں پہ تبسم کیوں ناجانے آ ہی جاتا ہے
تیری یادوں میں تابش وہ آج بھی جب مسکراتی ہے
محبت یاد آتی ہے ، محبت یاد آتی ہے umair Akbar tabish
نہ لکھا لکھا تھا کبھی میں نے
لفظوں میں نہیں اتا تھا یوں جذبات کو لکھنا
کسی احساس کو لکھنا
یہ کمال محبت ہے جس نے مجھ کو سکھلایا
تھمایا ہاتھ میں قلم اور کاغذ مجھ کو پکڑایا
جو دیکھا تو تصو ر میں تیرا چہرہ نظر آیا
مصور تو نہیں تھا جو کوئی تصویر بنا ڈالے
نہ شاعر اتنا اچھا کے کوئی تحریر بنا ڈالے
تیری یادیں تیری باتیں تیرا وہ مسکرانا اور
غصے میں تیرا یوں ہی بس روٹھ جانا اور
مجھے پھر سے منانے کا مل جانا بہانہ اک
کتنے اچھے لگتے ہیں وہ یادوں کے سبھی منظر
جو تیری قربت میں گزرے تھے
زہر میٹھا یہ پی کر بھی ، جدائی میں جی کر بھی
ہونٹھوں پہ تبسم کیوں ناجانے آ ہی جاتا ہے
تیری یادوں میں تابش وہ آج بھی جب مسکراتی ہے
محبت یاد آتی ہے ، محبت یاد آتی ہے umair Akbar tabish
ذات عشق ! عشق کی کوئی ذات نہیں
عشق مگر ہے ذات میں
ہے کسی کا حسن تو ہے
کسی کی بات میں
عشق مکمل خود نہیں
معبود مکمل ہے مگر
ہوتا بھی تو ہے فقط
عشق خدا کی ذات سے
ہے مجازی محبت پی زوال ممکن مگر
آ نہیں سکتا زوال عشق خدا کی ذات میں
وہ جو تجھ میں ہے بسا تو غیر کوئی اور کیوں ؟
ہو نہیں سکتی ملاوٹ عشق کے مقام پہ
وہ جو رنگ دے تجھے تو رنگ اسی کا بس رہے
میں کیا تھا ؟ میں کیا ہوں ؟ میں کبھی بھی نہ رہے
بس فقط اک ذات ہو اور بس اسی کی بات ہو
کوئی داخل ہو کبھی نہ عشق کے دربار میں
ہے بہت کٹھن یہ منزل ہر کوئی چل سکتا نہیں
حق ہے جس کا راستہ اور درد قدم با قدم
انتہائے عشق کو کربلا میں دیکھ کر
عشق خود ہی رو پڑا سجدہ عشق دیکھ کر
ہے فنا تو پھر بقا میں زندہ کون ہے ؟
ہے جہاں بھی عشق وہاں زندہ میرا حسین (رضي الله عنه ) ہے
umair Akbar tabish
عشق مگر ہے ذات میں
ہے کسی کا حسن تو ہے
کسی کی بات میں
عشق مکمل خود نہیں
معبود مکمل ہے مگر
ہوتا بھی تو ہے فقط
عشق خدا کی ذات سے
ہے مجازی محبت پی زوال ممکن مگر
آ نہیں سکتا زوال عشق خدا کی ذات میں
وہ جو تجھ میں ہے بسا تو غیر کوئی اور کیوں ؟
ہو نہیں سکتی ملاوٹ عشق کے مقام پہ
وہ جو رنگ دے تجھے تو رنگ اسی کا بس رہے
میں کیا تھا ؟ میں کیا ہوں ؟ میں کبھی بھی نہ رہے
بس فقط اک ذات ہو اور بس اسی کی بات ہو
کوئی داخل ہو کبھی نہ عشق کے دربار میں
ہے بہت کٹھن یہ منزل ہر کوئی چل سکتا نہیں
حق ہے جس کا راستہ اور درد قدم با قدم
انتہائے عشق کو کربلا میں دیکھ کر
عشق خود ہی رو پڑا سجدہ عشق دیکھ کر
ہے فنا تو پھر بقا میں زندہ کون ہے ؟
ہے جہاں بھی عشق وہاں زندہ میرا حسین (رضي الله عنه ) ہے
umair Akbar tabish
محبّت اک فسانہ ہے محبّت اک فسانہ ہے
اک اپنا بیگانہ ہے
کسی کو کھو کر پایا تو
کسی کو پا کر کھونا ہے
کسی کے خواب میں کوئی
کسی کے خیال میں کوئی
محبّت اک دھوکھا ہے جوکھا کر
میں نے سوچا ہے
محبت اک فسانہ ہے
کوئی اپنا بیگانہ ہے
خواب ایسا کے پلکوں پر ستاروں کو سجانے کا
خواب ایسا کے صحرا پر گلشن کو سجانے کا
سمندر کی لہروں پہ گھروندا اک بنانے کا
جسے چاہا اسے ہی بس نصیب اپنا بنانے کا
کیا کوئی کھلونا ہے ؟
جسے آسان ہو پانا ؟
ارے پاگل نہیں آساں کسی کو ٹوٹ کر چاہنا
میں نے اک بار چاہا تھا مگر ہمت نہیں ہوتی
کسی کو پھر سے چاہنے کی
محبّت پھر سے کرنے کی
کوئی ارمان جگانے کی
کوئی امید بھجانے کی
کوئی بھی اب تو مل جاۓ
وہ تو مل نہیں سکتی
میں سب یادیں بھلا دوں گا
سبھی وہ خط جلا دوں گا
سبھی ماضی بھلا دوں گا
ارے جینا بھی تو ہے تو پھر جی کر دیکھا دوں گا
شادی بھی تو کرنی ہے کوئی لڑکی بھی مل جاۓ
یہ دستو ر زمانہ ہے جینا اک بہانہ ہے
قبول کرنا ہی پڑتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ چلتے
محبّت خود فسانہ بن ہی جاتی ہے
نہیں یقین تو کر لینا
لوٹ کر کبھی آؤ
جو تابش کو یہاں پاؤ
دوبارہ اس کو پڑھ لینا
محبّت اک فسانہ ہے
اک اپنا بیگانہ ہے umair Akbar tabish
اک اپنا بیگانہ ہے
کسی کو کھو کر پایا تو
کسی کو پا کر کھونا ہے
کسی کے خواب میں کوئی
کسی کے خیال میں کوئی
محبّت اک دھوکھا ہے جوکھا کر
میں نے سوچا ہے
محبت اک فسانہ ہے
کوئی اپنا بیگانہ ہے
خواب ایسا کے پلکوں پر ستاروں کو سجانے کا
خواب ایسا کے صحرا پر گلشن کو سجانے کا
سمندر کی لہروں پہ گھروندا اک بنانے کا
جسے چاہا اسے ہی بس نصیب اپنا بنانے کا
کیا کوئی کھلونا ہے ؟
جسے آسان ہو پانا ؟
ارے پاگل نہیں آساں کسی کو ٹوٹ کر چاہنا
میں نے اک بار چاہا تھا مگر ہمت نہیں ہوتی
کسی کو پھر سے چاہنے کی
محبّت پھر سے کرنے کی
کوئی ارمان جگانے کی
کوئی امید بھجانے کی
کوئی بھی اب تو مل جاۓ
وہ تو مل نہیں سکتی
میں سب یادیں بھلا دوں گا
سبھی وہ خط جلا دوں گا
سبھی ماضی بھلا دوں گا
ارے جینا بھی تو ہے تو پھر جی کر دیکھا دوں گا
شادی بھی تو کرنی ہے کوئی لڑکی بھی مل جاۓ
یہ دستو ر زمانہ ہے جینا اک بہانہ ہے
قبول کرنا ہی پڑتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ چلتے
محبّت خود فسانہ بن ہی جاتی ہے
نہیں یقین تو کر لینا
لوٹ کر کبھی آؤ
جو تابش کو یہاں پاؤ
دوبارہ اس کو پڑھ لینا
محبّت اک فسانہ ہے
اک اپنا بیگانہ ہے umair Akbar tabish
محبّت کے تعویز ! محبّت کے کچھ اسے تعویز ہیں میرے پاس
جو مجھ کو کسی اور کا ہونے نہیں دیتے
ہر شب تیری یادوں کا اچانک سے آنا
تیری یاد کے جگنو مجھے سونے نہیں دیتے
اے ماضی میرے حال پہ کچھ تو رحم کر
گزرے ہوئے لمحے مجھے جینے نہیں دیتے
کب تک میں اٹھاؤں محبّت کا جنازہ
جس کو میرے اپنے بھی کندھا نہیں دیتے umair Akbar tabish
جو مجھ کو کسی اور کا ہونے نہیں دیتے
ہر شب تیری یادوں کا اچانک سے آنا
تیری یاد کے جگنو مجھے سونے نہیں دیتے
اے ماضی میرے حال پہ کچھ تو رحم کر
گزرے ہوئے لمحے مجھے جینے نہیں دیتے
کب تک میں اٹھاؤں محبّت کا جنازہ
جس کو میرے اپنے بھی کندھا نہیں دیتے umair Akbar tabish
Bohat Der Hoi Bohat Der Hoi Koi Ghazal Likhay Huwe
Wo B to Nahi Aye Saman-e- Hijar Liye
Aa jaty To Chirag Bhuja Dety Khud He
Nigaheen JAL RAHI Hen Shama Lie Huwe
Mekhany Main akely He Piye Ja Rha Hun
Dard-e- Ghame Hijraan Liye Huwe
Chaly Ao K Ab samaten Sitam Gar
Shab ki Thakavat.
Bojhal Bht Tabiyat KO Apni Lie Huwe
Wo aen to aasra Ho Chand Qadam Aagy
Ab Chal Nahi Sakty Paoon Apny Liye Huwe
Tabish Chalo Uthoo Aa Gai Hun Main
Mudadat Hoi Awaz-e- Jaan Suney Huwe
umair Akbar tabish
Wo B to Nahi Aye Saman-e- Hijar Liye
Aa jaty To Chirag Bhuja Dety Khud He
Nigaheen JAL RAHI Hen Shama Lie Huwe
Mekhany Main akely He Piye Ja Rha Hun
Dard-e- Ghame Hijraan Liye Huwe
Chaly Ao K Ab samaten Sitam Gar
Shab ki Thakavat.
Bojhal Bht Tabiyat KO Apni Lie Huwe
Wo aen to aasra Ho Chand Qadam Aagy
Ab Chal Nahi Sakty Paoon Apny Liye Huwe
Tabish Chalo Uthoo Aa Gai Hun Main
Mudadat Hoi Awaz-e- Jaan Suney Huwe
umair Akbar tabish
Kuch Loog.... Kuch Loog Muhabbat Ka Wasila Ban Kar
Kisi K Hath Se Chuth Jaty Hen
Mit Jatay Hen Muqadar Ki Lakeron Sey Bhi
Or Bas Yadoon Ki Tehreron Main Reh Jatay Hen
Hatheli Pe Barish Ki Bundon Ki Tran
Barasty Hen , Chutay Hain ,Or Guzar Jatay Hain
Aesi Hei Hai Kuch Kitab E Zindagi Tabish
Kuch Party Hen Or Phir Bhool Jatay Hain umair Akbar tabish
Kisi K Hath Se Chuth Jaty Hen
Mit Jatay Hen Muqadar Ki Lakeron Sey Bhi
Or Bas Yadoon Ki Tehreron Main Reh Jatay Hen
Hatheli Pe Barish Ki Bundon Ki Tran
Barasty Hen , Chutay Hain ,Or Guzar Jatay Hain
Aesi Hei Hai Kuch Kitab E Zindagi Tabish
Kuch Party Hen Or Phir Bhool Jatay Hain umair Akbar tabish
پہلی بارش ! دسمبر میں تیرے انتظار کی وہ پہلی بارش
میرے جیون میں تیرے پیار کی وه پہلی بارش
چڑھا ھے مدت بعد وہی گیت پھر سے
میرے محبوب تیرے پیار کی و پہلی بارش
رکھی ھیں آج بھی وہ کتابیں بند کر کہ ھم ںے
تحریریں ھیں جن میں یاد اور وہ پہلی بارش
چھم چھم وہ پازیب تیرے پیروں کی
بڑھتے قدم میرے پاس اور وہ پہلی بارش
وه تیرا ہاتھ میرے ہاتھوں میں اور سرد وہ راتیں
اپر سے مہینہ دسمبر کا اور وہ پہلی بارش
پوچھتے ھیں اشک اٹک کر میری پلکوں پہ
کہاں ھے تابش تیرا پیار اور وہ پہلی بارش
umair Akbar tabish
میرے جیون میں تیرے پیار کی وه پہلی بارش
چڑھا ھے مدت بعد وہی گیت پھر سے
میرے محبوب تیرے پیار کی و پہلی بارش
رکھی ھیں آج بھی وہ کتابیں بند کر کہ ھم ںے
تحریریں ھیں جن میں یاد اور وہ پہلی بارش
چھم چھم وہ پازیب تیرے پیروں کی
بڑھتے قدم میرے پاس اور وہ پہلی بارش
وه تیرا ہاتھ میرے ہاتھوں میں اور سرد وہ راتیں
اپر سے مہینہ دسمبر کا اور وہ پہلی بارش
پوچھتے ھیں اشک اٹک کر میری پلکوں پہ
کہاں ھے تابش تیرا پیار اور وہ پہلی بارش
umair Akbar tabish
افسانہ ہے حقیقت مگر افسانہ سا لگتا ہے
محبت میں دل میرا دیوانہ سا لگتا ہے
لگتا ہے وہ ہر پل اپنا مجھے
مگر کچھ کچھ بیگانہ سا لگتا ہے
کبھی خواب کبھی خیال کبھی انتخاب میرا
پلکوں کا سمندر میں ڈوب جانا سا لگتا ہے
کبھی دل جلا کر سلگتا ہے من کو
کبھی دل لگی کا میخانہ سا لگتا ہے
کبھی وہ اک ہی صنم کی ہوصورت
کبھی گھر سارا بت خانہ سا لگتا ہے
کبھی بارشوں میں وہ برستا ہے مجھ پر
کبھی موسم سارا ویرانہ سا لگتا ہے
ہیں سو افسانے محبت کے مگر
اک ان میں اپنا سا لگتا ہے
کبھی وہ آئینہ نما سا ہے تابش
کبھی عکس اپنا انجانا سا لگتا ہے umair Akbar tabish
محبت میں دل میرا دیوانہ سا لگتا ہے
لگتا ہے وہ ہر پل اپنا مجھے
مگر کچھ کچھ بیگانہ سا لگتا ہے
کبھی خواب کبھی خیال کبھی انتخاب میرا
پلکوں کا سمندر میں ڈوب جانا سا لگتا ہے
کبھی دل جلا کر سلگتا ہے من کو
کبھی دل لگی کا میخانہ سا لگتا ہے
کبھی وہ اک ہی صنم کی ہوصورت
کبھی گھر سارا بت خانہ سا لگتا ہے
کبھی بارشوں میں وہ برستا ہے مجھ پر
کبھی موسم سارا ویرانہ سا لگتا ہے
ہیں سو افسانے محبت کے مگر
اک ان میں اپنا سا لگتا ہے
کبھی وہ آئینہ نما سا ہے تابش
کبھی عکس اپنا انجانا سا لگتا ہے umair Akbar tabish