Poetries by یاسین سامی یوگوی۔ کویت
بے سر و سامانی کا مظہر ہوں گرچہ بے سر و سامانی کا مظہر ہوں گرچہ
سادہ بے رنگ اک جدا منظر ہوں گرچہ
دل میں ہے عشق و جنون و جذب ومستی
ظاہرا ویران اک کنڈور ہوں گرچہ
دنیا والوں کو تو باہر کی پڑی ہے
کتنا بھی اندر سے میں سندر ہوں گرچہ
خوشبو پھولوں کی، گلابوں کی قبا ہوں
پیرہن سے لگتا تو بنجر ہوں گرچہ
ابیض واحمر سے ڈرتے ہیں سبھی کیوں؟
میں کبھی ڈرتا نہیں،’’ اسمر ‘‘ ہوں گرچہ
بچے اور بیگم ہوئی گم WhatsApp میں
بے بسی سہتا رہوں، شوہر ہوں گرچہ یاسین سامیؔ
سادہ بے رنگ اک جدا منظر ہوں گرچہ
دل میں ہے عشق و جنون و جذب ومستی
ظاہرا ویران اک کنڈور ہوں گرچہ
دنیا والوں کو تو باہر کی پڑی ہے
کتنا بھی اندر سے میں سندر ہوں گرچہ
خوشبو پھولوں کی، گلابوں کی قبا ہوں
پیرہن سے لگتا تو بنجر ہوں گرچہ
ابیض واحمر سے ڈرتے ہیں سبھی کیوں؟
میں کبھی ڈرتا نہیں،’’ اسمر ‘‘ ہوں گرچہ
بچے اور بیگم ہوئی گم WhatsApp میں
بے بسی سہتا رہوں، شوہر ہوں گرچہ یاسین سامیؔ
دیس بدیس مجھے پردیس میں بس دیس کی یادیں رلاتی ہیں
کبھی خوشبو وطن کی تو کبھی شامیں رلاتی ہیں
تڑپتا ہے مرا دل جب بھی تیرا نام سنتا ہوں
مجھے اپنوں کی میٹھی میٹھی وہ باتیں رلاتی ہیں
مرا دولت کدہ روشن، مرا چرچا بھی ہے لیکن
اکیلا بے بسی میں چاندنی راتیں رلاتی ہیں
میں آکر شہر کی رونق میں کھو گیا ہوں مگر سن لو
مجھے صبح ومسا یاں، اپنوں کی آہیں رلاتی ہیں
گلابوں کو چمن میں کھلکھلاتے دیکھتا ہوں یاں
مرے دل کو وطن کی شبنمی صبحیں رلاتی ہیں
مدینے میں اقامت کی تمنا نا مکمل ہے
محمد ﷺ سے محبت ہے تبھی نعتیں رلاتی ہیں
میں تھک کر شام کو کمرے میں جب آتا ہوں اے سامیؔ
جگر کو میرے ماں کی پیاری آوازیں رلاتی ہیں
یاسین سامی یوگوی
کبھی خوشبو وطن کی تو کبھی شامیں رلاتی ہیں
تڑپتا ہے مرا دل جب بھی تیرا نام سنتا ہوں
مجھے اپنوں کی میٹھی میٹھی وہ باتیں رلاتی ہیں
مرا دولت کدہ روشن، مرا چرچا بھی ہے لیکن
اکیلا بے بسی میں چاندنی راتیں رلاتی ہیں
میں آکر شہر کی رونق میں کھو گیا ہوں مگر سن لو
مجھے صبح ومسا یاں، اپنوں کی آہیں رلاتی ہیں
گلابوں کو چمن میں کھلکھلاتے دیکھتا ہوں یاں
مرے دل کو وطن کی شبنمی صبحیں رلاتی ہیں
مدینے میں اقامت کی تمنا نا مکمل ہے
محمد ﷺ سے محبت ہے تبھی نعتیں رلاتی ہیں
میں تھک کر شام کو کمرے میں جب آتا ہوں اے سامیؔ
جگر کو میرے ماں کی پیاری آوازیں رلاتی ہیں
یاسین سامی یوگوی
ذو قافیتین نعت سخن دان عالمی ادبی فورم 24 واں فی البدیہ ذو قافیتین
طرحی مشاعرہ، 30 دسمبر 2014ء میں میری کاوش
صد شکر ہے ہماری تو نسبت خدا سے ہے
احمد ﷺ سے بھی ہماری محبت سدا سے ہے
ہے ضابطہ حیاتِ نبی ﷺ میں یہ جاوداں
الفت انہیں وفا سے، کراہت ریا سے ہے
مکہ مری دعا ہے، مدینہ مری عطا
رحمت دعا سے اور سکینت عطا سے ہے
گلشن ہے مصطفیٰ ﷺ کا، صحابہ گلاب ہیں
دنیا میں حسن اور یہ نکہت وفا سے ہے
جدِّ نبی ﷺ خلیل ؑ کی قربانی ہے عیاں
ایثار وجاں نثاری کی آیت صفا سے ہے
خیر الوریٰ ﷺ کی ہم کو معیّت نصیب ہو
ساؔمی کی بس یہی دعا حاجت روا (عز وجل) سے ہے یاسین سامیؔ
طرحی مشاعرہ، 30 دسمبر 2014ء میں میری کاوش
صد شکر ہے ہماری تو نسبت خدا سے ہے
احمد ﷺ سے بھی ہماری محبت سدا سے ہے
ہے ضابطہ حیاتِ نبی ﷺ میں یہ جاوداں
الفت انہیں وفا سے، کراہت ریا سے ہے
مکہ مری دعا ہے، مدینہ مری عطا
رحمت دعا سے اور سکینت عطا سے ہے
گلشن ہے مصطفیٰ ﷺ کا، صحابہ گلاب ہیں
دنیا میں حسن اور یہ نکہت وفا سے ہے
جدِّ نبی ﷺ خلیل ؑ کی قربانی ہے عیاں
ایثار وجاں نثاری کی آیت صفا سے ہے
خیر الوریٰ ﷺ کی ہم کو معیّت نصیب ہو
ساؔمی کی بس یہی دعا حاجت روا (عز وجل) سے ہے یاسین سامیؔ
ماں کی دعا زندگی کی مری ابتدا میری ماں کی دعا
زندگی کی مری انتہا میری ماں کی دعا
میں گناہوں کا پتلا، مگر سن لے میرے خدا
ہے مری ایک ہی التجا میری ماں کی دعا
آتی ہے جب کبھی زندگی میں مصیبت کوئی
میرا بن جاتی ہے آسرا میری ماں کی دعا
ماں کے قدموں کے نیچے ہے جنت کا دروازہ وا
آرہی ہے مجھے اک صدا میری ماں کی دعا
دل مرا شاد رہتا ہے، آنکھوں میں میری چمک
کان میں گونجتی ہے سدا میری ماں کی دعا
عالمِ مدہوشی میں، میں کھو جاتا ہوں ہر ادا
یاد رہتی ہے اک ہی ادا، میری ماں کی دعا
میری آنکھوں میں تاریکی پھیلی ہوئی ہے مگر
تیرگئی شب میں ہے اک ضیا میری ماں کی دعا
مشکلوں کا سفر ہے، کٹھن ہے بہت راہ بھی
پر نہیں غم، ہے جو زاد راہ میری ماں کی دعا
یا الٰہی مری اک تمنا ہے بس ایک ہی
ہو مری زندگی کی عطا میری ماں کی دعا
ہر دعا مانگتی ہے مری ماں محبت سے تب
ٹال دیتی ہے ہر اک بلا میری ماں کی دعا
یوں تو گلشن سے خوشبو مہکتی ہے ساری مگر
ایک خوشبو ہے سب سے جدا میری ماں کی دعا
جب کبھی ڈوبنے لگتی ہے کشتی منجدھار میں
سنتا ہے اس سمے بھی خدا میری ماں کی دعا
عارضی ہے بقا اس جہاں میں سنو سامیؔ جی
سرمدی ہے خدا کی رِضا میری ماں کی دعا یاسین سامیؔ
زندگی کی مری انتہا میری ماں کی دعا
میں گناہوں کا پتلا، مگر سن لے میرے خدا
ہے مری ایک ہی التجا میری ماں کی دعا
آتی ہے جب کبھی زندگی میں مصیبت کوئی
میرا بن جاتی ہے آسرا میری ماں کی دعا
ماں کے قدموں کے نیچے ہے جنت کا دروازہ وا
آرہی ہے مجھے اک صدا میری ماں کی دعا
دل مرا شاد رہتا ہے، آنکھوں میں میری چمک
کان میں گونجتی ہے سدا میری ماں کی دعا
عالمِ مدہوشی میں، میں کھو جاتا ہوں ہر ادا
یاد رہتی ہے اک ہی ادا، میری ماں کی دعا
میری آنکھوں میں تاریکی پھیلی ہوئی ہے مگر
تیرگئی شب میں ہے اک ضیا میری ماں کی دعا
مشکلوں کا سفر ہے، کٹھن ہے بہت راہ بھی
پر نہیں غم، ہے جو زاد راہ میری ماں کی دعا
یا الٰہی مری اک تمنا ہے بس ایک ہی
ہو مری زندگی کی عطا میری ماں کی دعا
ہر دعا مانگتی ہے مری ماں محبت سے تب
ٹال دیتی ہے ہر اک بلا میری ماں کی دعا
یوں تو گلشن سے خوشبو مہکتی ہے ساری مگر
ایک خوشبو ہے سب سے جدا میری ماں کی دعا
جب کبھی ڈوبنے لگتی ہے کشتی منجدھار میں
سنتا ہے اس سمے بھی خدا میری ماں کی دعا
عارضی ہے بقا اس جہاں میں سنو سامیؔ جی
سرمدی ہے خدا کی رِضا میری ماں کی دعا یاسین سامیؔ
حمد باری تعالی مالکِ ارض وسما تو
صاحبِ جود سخا تو
ہادی تو جن وبشر کا
منبعِ رشد وہدیٰ تو
سب ترے در کے سوالی
مامنِ شاہ وگدا تو
حمد ومدح وشرف تیرا
لائقِ فضل وثنا تو
روز وشب کا ہے مقلّب
موجدِ صبح ومسا تو
منزلِ ’’والشمس‘‘ تو ہے
ناشرِ نور وضیا تو
روشنی ہی روشنی ہے
معدنِ حسن وسَنا تو
اَدون واَدنیٰ خلائق
پیکرِ مجد وعلا تو
ہے نہاں "لا فرق" میں یہ
خالقِ سرخ وسیَہ تو
حکم ہے "خذ ما صفا" کا
مرجعِ صدق وصفا تو
لفظِ "اَلَّف" میں ہےپنہاں
مصدرِ مہر ووفا تو
اوس وخزرج بھی ملے تھے
مخزنِ ربط واِخا تو
حکمِ "لا تحزن" تھا اعلاں
رہبرِ ثور وحرا تو
سوچ سے عاری ہے ہر دل
واہبِ فکر وادا تو
بھوکے مرتے ہیں بہت، پَر
فالقِ حب ونویٰ تو؟!
ہر جگہ آہ وفغاں ہے
کاشفِ کرب وبلا تو؟
حمد سامیؔ کی تو سن لے
سامعِ صوت وندا تو
یاسین سامی یوگوی۔ کویت
بروز شنبہ، ۱۳ رمضان المبارک ۱۴۳۶ھ، بموافق ۱۲ جولائی ۲۰۱۴ء،
بوقت ۶:۴۰ بصبح، بمقام غریب خانہ خود یاسین سامی یوگوی۔ کویت
صاحبِ جود سخا تو
ہادی تو جن وبشر کا
منبعِ رشد وہدیٰ تو
سب ترے در کے سوالی
مامنِ شاہ وگدا تو
حمد ومدح وشرف تیرا
لائقِ فضل وثنا تو
روز وشب کا ہے مقلّب
موجدِ صبح ومسا تو
منزلِ ’’والشمس‘‘ تو ہے
ناشرِ نور وضیا تو
روشنی ہی روشنی ہے
معدنِ حسن وسَنا تو
اَدون واَدنیٰ خلائق
پیکرِ مجد وعلا تو
ہے نہاں "لا فرق" میں یہ
خالقِ سرخ وسیَہ تو
حکم ہے "خذ ما صفا" کا
مرجعِ صدق وصفا تو
لفظِ "اَلَّف" میں ہےپنہاں
مصدرِ مہر ووفا تو
اوس وخزرج بھی ملے تھے
مخزنِ ربط واِخا تو
حکمِ "لا تحزن" تھا اعلاں
رہبرِ ثور وحرا تو
سوچ سے عاری ہے ہر دل
واہبِ فکر وادا تو
بھوکے مرتے ہیں بہت، پَر
فالقِ حب ونویٰ تو؟!
ہر جگہ آہ وفغاں ہے
کاشفِ کرب وبلا تو؟
حمد سامیؔ کی تو سن لے
سامعِ صوت وندا تو
یاسین سامی یوگوی۔ کویت
بروز شنبہ، ۱۳ رمضان المبارک ۱۴۳۶ھ، بموافق ۱۲ جولائی ۲۰۱۴ء،
بوقت ۶:۴۰ بصبح، بمقام غریب خانہ خود یاسین سامی یوگوی۔ کویت