فضا میں لوگوں کا درد سنائی دیتا ہے مجھے
زمیں پہ زخمیوں کا خون دکھائی دیتا ہے مجھے
ضمیر نے جب سے ظاہری کا روپ دھار لیا ہے
خوابوں میں بہت ہی فقیرائی دیتا ہے مجھے
عجب تھا خیال ذہن محبت کی قربت کو دیکھ کر
کہ اس کا ہر بڑھتا قدم رسوائی دیتا ہے مجھے
دوسری راہ اختیار کرنے کا جو سوچا ہے
یہ جملہ راہ ماضی سے جدائی دیتا ہے مجھے
جب جب طلب سکون کی ہے دل ماہم نے
زخم قید دنیا سے رہائی دیتا ہے مجھے