آ ہی گئی یاد جو اس کی تو کیسے بھلاؤں آدھی رات کو
کوشش کروں سونے کی پر سو نا پاؤں آدھی رات کو
اس کا خیال بھی خار خار ہے زخم دے گیا مجھے
ان زخموں پے کیسے مرہم لگاؤ آدھی رات کو
لوگ تزکرہ کرتے ہیں صرف میری بے وفایئ کے
میں کس سے بات کروں کسے سچ بتاؤں آدھی رات کو
جیسے میں تڑپتا ہوں وہ کبھی نہ تڑپے دعا ہے میری
میں خواب میں بھی اسے کبھی نا ستاؤں آدھی رات کو
چاروں طرف جیسے غم کا اندھیرا سا چھا گیا ھے تنویر
میں کیسے دل بھلا وں آخر کہاں جاؤں آدھی رات کو