آؤ ہم مل کر خواہشیں سجاتے ہیں
پوری تو نہ جانے کب ہوں گی
تب تک ذرا ہم اپنا دل بہلاتے ہیں
دیکھتے ہیں کون سجاتا ہے بہتر
آج ذرا مختلف سی ترتیب لگاتے ہیں
لیکن ذرا ٹھہرو اس کام سے پہلے
تھوڑے سے کچھ اصول بنا لیتے ہیں
ساری پرانی خواہشوں کو نکل دینا ہے
جو آج سوچی ہیں انھیں ان کی جگا رکھنا ہے
جن کا امکان ہے اب پورے ہونے کا
ان کو ناممکن سے نکال رکھنا ہے
جن کو پوری کرنے نکلنا تھا کل ہم نے
اس کے لئے آج ہی قدم اٹھا لینا ہے
ادھوری خواہشوں پہ رونا نہیں
اپنے آنکھوں سے نکلتے آنسو سنبھال رکھنا ہے
چلو پھر آج ذرا اپنا ماضی بلاتے ہیں
سوچ کر پرانی کبھی پوری ہوئی خواہشوں کو
خود کو حوصلہ دیتے اور خود کو مناتے ہیں