سوچا ہے کہ خود پہ زرا سی عنایت کرلوں
اے زندگی تجھ سے وہ پہلی سی محبت کرلوں
سناؤں اب کس کس کو میں سببِ دلِ ویران
آئینہ سامنے رکھ کر اپنی ہی شکایت کرلوں
تو شاہ ہے تو میرے فقر کی غیرت نہ چھیڑ
کہیں ایسانہ ہو تجھ سے بھی عداوت کرلوں
اک میری انا کے سوا کون میرے ساتھ رہا
جان دیکر پھر کیوں نہ اسکی حفاظت کرلوں
جھک جائے سرِ تسلیم خم امیر شہر کے آگے
میں بھی کیسے اِس فکر کی حمایت کرلوں
پہچان میری بن گیا ہے تو ورنہ ، اے فراز
دل کرتا ہے سرے عام تیری بھی بغاوت کرلوں