آئینہ کا سوال
Poet: Yasmin Elahi By: Yasmin Elahi, Karachiآ ئینہ دیکھتی ہوں میں تو ٹھٹک جاتی ہوں
ایک انجان سی صورت نظر آتی ہے مجھے
حیراں ہو کر میں کرتی ہوں یہ خود سے سوال
دکھی کر دیتا ہے مجھ کو میرا اپنا ہی سوال
یہ جو چہرہ ہے یہ مرا چہرہ تو نہیں
یہ جو آنکھیں ہیں یہ مری آنکھیں تو نہیں
اس نئے چہرے کا تو لگتا ہے ہر اک نقش اداس
دھواں دیتے نظر آتے ہیں نگاہوں کے چراغ
میری آنکھوں میں تو رہتا تھا تبسم رقصاں
لب پہ رہتی تھی ہنسی کھلتے گلابوں کی طرح
خامشی میں مری ہوتی تھیں ہزاروں باتیں
چہچہاتی پھرتی تھی میں کسی بلبل کی طرح
ہر طرف میں تو جلاتی تھی محبت کے چراغ
میں سمجھتی تھی زندگی خوشیوں کا ہے نام
ہر طرف پھول ہیں مجھ کو کانٹوں سے کیا کام
دکھ کتنے ہیں مقدر میں مجھے معلوم نہ تھا
زندگی کا یہ روپ بھی ہے، سوچا ہی نہ تھا
کھائے جب زخم تو زیست ہے کیا، یہ میں نے جانا
پھر بھی تھے عزم جواں، ہر مشکل کو آسان جانا
ہنس کے سہتی رہی جو زخم زندگی دیتی گئی
اپنے اشکوں کو ھنسی میں میں چھپاتی گئی
شکوہ کرنا نہ کبھی دل کو یہ سمجھاتی رہی
کبھی راہ میں ترے بھی جلینگے محبت کے چراغ
وقت بہت بیت گیا تو میں نے یہ حقیقت جانی
اس جہاں میں وفا کی کوئی قیمت ہی نہیں
تلخیاں گھلتی گئیں کچھ اس طرح دل کے اندر
اک اک کر کے بجھے سب وہ محبت کے چراغ
اب ہے آئینہ اور اک اجنبی چہرہ ہے
جس کے ہر نقش سے ابھرتا ہے اذیت کا سراغ
اور یہ چہرہ مجھ سے کرتا ہے ہردم یہ سوال
ہے کوئی جو کہ دے اس کے سوالوں کا جواب
وقت کے صحرا میں کہاں کھو گیا تیرا وہ وجود
ر طرف جو کہ جلاتا تھا محبت کے چراغیاسمیین






