آئے تھے ان کے ساتھ نظارے چلے گئے
وہ شب، وہ چاندنی، وہ نظارے چلے گئے
شاید تمہارے ساتھ بھی واپس نہ آ سکیں
وہ ولولے جو ساتھ تمہارے چلے گئے
ہر آستاں اگرچہ تیرا آستاں نہ تھا
ہر آستاں پہ تُجھ کو پکارے چلے گئے
شامِ وصال، خانہ غربت سے رُوٹھ کر
تُم کیا گئے، نصیب ہمارے چلے گئے
جاتے ہجومِ حشر میں ہم عاصیاںِ دہر
اے لطفِ یار، تیرے سہارے چلے گئے
دُشمن گئے تو کشمکشِ دوستی ہو گئی
دُشمن گئے کہ دوست ہمارے چلے گئے
جاتے ہی اُن کے سیف شبِ غم نے آ لیا
رُخصت ہوا وہ چاند، ستارے چلے گئے