آباد گھروں سے دور کہیں
جب بنجر بن میں آگ جلے
پردیس کی بوجھل راہوں میں
توبہت دل دکھتا ہے
جب شام ڈھلے
جب رات کا قاتل سناٹا پر ہول ہوا کے وہم لیے
قدموں کی چاپ ساتھ چلے
تو بہت دل دکھتا ہے
جب وقت کا نابینا جوگی
کچھ ہنستے ہنستے چہروں پر
بے درد رتوں کی راکھ ملے
تو بہت دل دکھتا ہے
جب شہ رگ میں محرومی کا نشتر ٹوٹے
جب ہاتھ سے ریشم رشتوں کا دامن چھوٹے
جب تنہائی کے پہلو سے
تو بہت دل دکھتا ہے
انجانے درد کی لے پھوٹے
جب زرد رتوں کے سائے میں پھول کھیلیں
جب زخم دہکنے والے ہیں
تو بہت دل دکھتا ہے
جب خوشیوں کے پیغام ملیں
اپنے دریدہ دامن کے جب چاک سلیں
جب آنکھوں خود سے خواب بنیں
خوابوں میں بسے چہروں کی جب بھیڑ لگے
اس بھیڑ میں جب تم کھو جاؤ
جب حبس بڑھے تنہائی کا
جب خواب جلیں جب آنکھ بجھے
جب اپنے بہت یاد آئیں
تو بہت دل دکھتا ہے
تو بہت دل دکھتا ہے